ہر لفظ کے تمام معانی میں ہم بھی تھے
کیا دور تھا کہ تیری کہانی میں ہم بھی تھے
اٹھتی ہے اک کسک تیری تصویر دیکھ کر
تازہ میں ہم نہیں، پرانی میں ہم بھی تھے
تو عام سا نہ جان ہمیں اے حسین شخص
جیسا تو اب ہے ویسے جوانی میں ہم بھی تھے
سیلاب غم میں جانے کہاں بہہ گئے وہ دن
جب تو بھی موج میں تھا، روانی میں...
یہ دھوپ کنارا شام ڈھلے
ملتے ہیں دونوں وقت جہاں
جو رات نہ دن جو آج نہ کل
پل بھر کو امر پل بھر میں دھواں
اس دھوپ کنارے پل دو پل
ہونٹوں کی لپک
بانہوں کی چھنک
یہ میل ہمارا جھوٹ نہ سچ
کیوں رار کرو کیوں دوش دھرو
کس کارن جھوٹی بات کرو
جب تیری سمندر آنکھوں میں
اس شام کا سورج ڈوبے گا
سکھ سوئیں گے گھر در...
آنکھیں
یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں
غنیم ِ شہر کو وہ تھا بصارتوں کا جنوں
کہ جب بھی لْوٹ کے لایا تمام آنکھیں تھیں
خطوط ِ نور سے ہر حاشیہ مزّین تھا
کتاب ِ نور میں سارا کلام آنکھیں تھیں
اب آگئے ہیں یہ چہروں کے زخم بھرنے کو
کہاں گئے تھے مناظر جو عام آنکھیں تھیں...