لطیفے ۔۔۔۔۔۔تصویری یالفظی

سیما علی

لائبریرین
ایک آدمی لائبریری سے صرف مولانا حالی کی کتابیں لیا کرتا تھا۔ ایک بار لائبریرین نے کہا آپ کو حالی کی کتابیں پسند ہیں؟ وہ آدمی بولا ایسی کوئی بات نہیں، دراصل مجھے ایک بار حالی کی کتاب سے سو روپے کا نوٹ ملا تھا۔
 

صاد الف

محفلین
ایک ہندو اور عیسائی صحرا میں کئی دنوں تک بھٹکتے رہے۔ ایک دوپہر کو دور ایک مسجد نظر آئی۔ ہندو بولا : دیکھو وہ مسجد ہے اگر ہم خود کو مسلمان ظاہر کریں گے تو وہاں سے ہمیں کھانے کو کچھ مل سکتا ہے۔ میں اپنا نام احمد بتاؤں گا... مگر عیسائی نے خود کو مسلمان ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔
مسجد کے امام نے دونوں کا خوش دلی سے استقبال کیا اور نام پوچھا
ہندو : میرا نام احمد ہے۔
عیسائی : میرا نام مائیکل ہے۔
امام صاحب نے ایک شخص کو بلایا اور کہا مائیکل کے لئے کچھ کھانے کو لاؤ۔
پھر ہندو کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا : اور سنائیں احمد صاحب روزے کیسے گزر رہے ہیں؟
 

سیما علی

لائبریرین
IMG-2392.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
ایک شاعرہ کی شادی اتفاق سے ایک آڑھتی سے ہو گئی۔ موصوف لکھنے پڑھنے جیسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

شاعرہ نے ٹوٹتی ہوئی امید کی لوکو ذرا سا بلند کرتے ہوئے پوچھا،" سرتاج! کیا آپ کو شاعری سے دلچسپی ہے؟"
آڑھتی صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر سر اثبات میں ہلا دیا۔
شاعرہ ‏نے شک کو یقین میں بدلنے کی خاطر کہا،" سرتاج! اس شعر کا مطلب تو سمجھا دیجیے:

کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

آڑھتی صاحب نے نوبیاہتا شاعرہ پر ایک نظر ڈالی اورٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولے،
اس شعر کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں لیکن مجھے یہ سمجھ آتا ہے
کہ تم نے میرے گھر میں بسنا وسنا کوئی نہیں
 

سیما علی

لائبریرین
میں تو تجھے یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ میں نے آج تیرے گھر والے کو اپنی کار میں ایک لڑکی کو بٹھا کر جاتے دیکھا ہے۔
میرے میسیج کے جاتے ہی اس کی کال آگئی، میں نے نظر انداز کیا۔ اگلے آدھے گھنٹے میں اس کی 21 سے زیادہ کالیں آ چکی تھیں۔
میرے فون نہ اٹھانے پر اس نے مجھے لگاتار 3 میسیج کیئے جس میں اس نے پوچھنا کیا تھا کہ کیسی لڑکی تھی، کب کی بات ہے، کدھر دیکھا تھا اور کس طرف جاتے دیکھا تھا۔ میں اس کے کسی میسیج کا جواب نہیں دیا،
جس میں اس نے پوچھنا کیا تھا کہ کیسی لڑکی تھی، کب کی بات ہے، کدھر دیکھا تھا اور کس طرف جاتے دیکھا تھا۔ میں اس کے کسی میسیج کا جواب نہیں دیا،
اس کے فون کالوں کا سلسلہ جاری رہا اور گھنٹے بھر میں اس نے 36 کالیں کر ڈالیں۔
اس بار اس کا میسیج آیا کہ کیا خیال ہے کہیں ملتے ہیں، میں تمہارے پیسے تمہیں واپس کرتی ہوں بس تم مجھے تفصیل سے میرے خاوند اور اس کے ساتھ جاتی ہوئی لڑکی کے بارے میں بتا دو۔
میں نے جواب بھیجا مجھے ملنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن میرے پاس تو کار میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے بھی نہیں ہیں، مجھے پیسے میرے اکاؤنٹ میں بھیج دو میں ابھی آجاتی ہوں۔
استانی جی کہتی ہیں اگلے 20 منٹ میں میرے سارے پیسے میرے اکاؤنٹ میں آچکے تھے اور پھر میں نے موبائل ہی آف کر دیا۔
😀😀😀😀
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
‏لڑکی والوں نے بارات کو نکاح سے پہلے کھانا دیا۔
میراثی جو بہت جوش و خروش سے کام کرتا پھر رہا تھا بھوکا رہ گیا۔ نکاح ہونے کو تھا۔
میراثی خاموشی سے نکاح کے پنڈال میں پہنچا۔
تمام مہمانان کی نظریں سٹیج پر ہی تھیں۔
میراثی نے چپ چاپ سٹیج پر پہنچ کر لڑکی کے باپ "چوہدری صاحب" کے‏کان میں بتایا کہ اسے بھوک لگی ہے اور کھانا ختم ہو چکا ہے۔
چوہدری کو میراثی کی اس حرکت پر غصہ آیا اور اس نے اسے سرِ عام ذلیل کر ڈالا۔
میراثی نے آہستہ سے کہا، "چوہدری جی میں چاہواں تے ایہہ ویاہ ایتھے ای رک جاوے۔"
۔"
چوہدری کو اور تپ چڑھی۔
‏اس نے کھسہ اتار کر میراثی کو پیٹ ڈالا۔
میراثی سٹیج پر سب کے سامنے آ کر چلا کر بولا،
"اس کڑی دا جدوں جدوں وی ویاہ ہویا، سانوں لتر ای پئے نے۔"🙂
 

رباب واسطی

محفلین
ایک ہندو اور عیسائی صحرا میں کئی دنوں تک بھٹکتے رہے۔ ایک دوپہر کو دور ایک مسجد نظر آئی۔ ہندو بولا : دیکھو وہ مسجد ہے اگر ہم خود کو مسلمان ظاہر کریں گے تو وہاں سے ہمیں کھانے کو کچھ مل سکتا ہے۔ میں اپنا نام احمد بتاؤں گا... مگر عیسائی نے خود کو مسلمان ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔
مسجد کے امام نے دونوں کا خوش دلی سے استقبال کیا اور نام پوچھا
ہندو : میرا نام احمد ہے۔
عیسائی : میرا نام مائیکل ہے۔
امام صاحب نے ایک شخص کو بلایا اور کہا مائیکل کے لئے کچھ کھانے کو لاؤ۔
پھر ہندو کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا : اور سنائیں احمد صاحب روزے کیسے گزر رہے ہیں؟
اللہ اکبر 😀
بہت ہی خوب
 

سیما علی

لائبریرین
ایک مشہور لکھنوی لطیفہ😀
لکھنؤ میں ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے، کہ جب بات کرنی ہو تو تشبیہات، استعارات، محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔
ایک بار دورانِ تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھے۔ انھوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا، تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔ ایک شاگرد اجازت لے کر کھڑا ہوا اور بڑے ادب سےگویا ہوا:
”حضور والا..!! یہ بندہ ناچیز حقیر فقیر، پر تقصیر، ایک روح
فرساحقیقت، حضورکےگوش گزار کرنےکی جسارت کررہا ہے، وہ یہ کہ؛ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سےحقہ نوشی ادا فرمارہےہیں۔چند ثانیےقبل میری چشم نارسا نےایک اندوہناک منظرکامشاہدہ کیا،کہ ایک شرارتی آتشی پتنگا آپکی چلم سےافقی سمت میں بلند ہوکر، چند لمحےہوا میں ساکت و معلق رہا اور پھر آ کر آپکی دستارِفضیلت پر براجمان ہوگیا،اگر اس فتنہ و شر کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی، تو حضوروالا کی جان والاشان کو شدید خطرات لاحق ہوا سکتےہیں۔“
لیکن اتنی دیرمیں استاد محترم کی دستاراور تقریبا چوتھائی بال جل چکےتھے۔😀
 

سیما علی

لائبریرین
اخبار میں اشتہار چھپا؛
مرسڈیز کار برائے فروخت صرف 100 روپے میں
کوئی بھی اس پر یقین نہیں کر رہا تھا۔
پر ایک صاحب یہ اشتہار دیکھ کر لکھے ہوئے ایڈریس پر جا پہنچے۔ اور دروازہ کی بیل بجائی.ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نے دروازہ کھولا۔

صاحب نے پوچھا: "آپ ایک مرسڈیز کار بیچ رہی ہیں؟"

خاتون: "جی ہاں!"

صاحب: "میں کار دیکھ سکتا ہوں؟"

"جی شوق سے، آئیے!" یہ کہہ کے خاتون نے گیراج کھلوایا۔

صاحب نے دھیان سے کار کو دیکھا تو انکی آنکھیں 👀 پھیل گئیں 😳😳😳
بولے: "یہ تو ایکدم نئی ہے؟؟"

جواب ملا: "ایکدم تو نئی نہیں ہے۔ 18000 ہزار کلومیٹر چل چکی ہے۔"

صاحب: "لیکن اخبار میں تو اسکی قیمت صرف 100 روپیے چھپی ہے؟"

خاتون: "صحیح چھپی ہے۔ 100 کی ہی ہے۔ آپ 100 روپیے دیجئے اور کار لے جائیے!"

صاحب نے کانپتے ہاتھوں سے 100 روپیے نکال کے دئے۔
خاتون نے روپے لیکر فورآ رسید بنائی، اور کار کے کاغذات چابی کے ساتھ صاحب کو پکڑا دئے۔

شدید بےیقینی کے عالم میں صاحب نے آخر پوچھا: "بہن جی! اب تو بتا دیجئے کہ معاملہ کیا ہے؟ میں تو
حیرت سے مرا جا رہا ہوں۔"

خاتون: "گھبرائیے مت! کار اب یقینی طور پر آپکی ہی ہے۔
میں تو بس اپنے مرحوم شوہر کی آخری خواہش پوری کر رہی ہوں۔
وہ اپنی وصیت میں لکھ گئے تھے کہ انکے مرنے کے بعد یہ مرسڈیز گاڑی بیچ دی جائے، اور ملی ہوئی ساری رقم ...
۔
۔
۔
انکی دوسری بیوی کو دے دی جائے...!"😁😁
 

سیما علی

لائبریرین
کینیڈا ایک مہنگا ملک ہے، لیکن اس کی شہری خدمات اعلیٰ ترین معیار کی ہیں۔ کرسمس کے دوران کراچی سے ایک فیملی چھٹیاں منانے کینیڈا گئی ہوئی تھی۔ اس میں ایک جوڑا، ان کے 2 بچے اور اس شخص کا باپ شامل تھا۔ ٹورنٹو میں 3 دن کے بعد، انہوں نے مونٹریال جانے کے لیے ایک کار کرائے پر لی۔ ہائی وے 401 دنیا کے سب سے چوڑے حصے میں 18 لین گزرنے کے ساتھ فری وے بالکل شاندار ہے۔ ایک 80+ کینیڈین خاتون ان کے پیچھے ایک کار میں محفوظ فاصلہ رکھتے ہوئے تھی۔ بچے پچھلی سیٹ پر سے بار بار پیچھے دیکھ رہے تھے اور اکثر کینیڈین خاتون
کو ہاتھ ہلاتے تھے جو مسکرا کر جاب میں ہاتھ ہلاتی جاتی تھی
اچانک کینیڈین خاتون نے دیکھا کہ ان کی کار سے بوڑھے کا سر پچھلی سیٹ کی کھڑکی سے باہر نکلا اور خون کی قے ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی کار سائیڈ پر روکی اور فوری طور پر مدد کے لیے 911 پر کال کی۔ بہت جلد، ایک ایمبولینس ہیلی کاپٹر نمودار ہوا۔ یہ ایک کلومیٹر آگے اترا۔ خاندان کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا، اور کچھ ہی دیر میں تربیت یافتہ طبی عملہ بوڑھے کو ہیلی کاپٹر میں لے گیا جو تقریباً ایک آئی سی یو تھا۔ آکسیجن کی سپلائی شروع ہو گئی۔ دل کی شرح اور دیگر
پیرامیٹرز کی نگرانی کی گئی۔ ایک ماہر ایم ڈی ہدایات فراہم کرنے کے لیے ٹورنٹو سے ویڈیو کال پر تھا۔ آدھے گھنٹے میں بوڑھے کو محفوظ اور دوبارہ سفر کے لیے فٹ قرار دے دیا گیا۔ کینیڈین خاتون کی فوری مدد اور بروقت کارروائی پر خراج تحسین۔

ان خدمات کے لیے، اس آدمی سے $3,500 وصول کیے گئے۔ ایک متوسط پاکستانی خاندان کے لیےیہ بہت پیسہ ہیے۔

اس غیر معمولی مالی اخراجات کے ساتھ، کراچی والا صدمے میں تھا اور اس نے اپنے والد کو بڑے افسردگی سے کہا
کہ
ابا جی، پان کھا کر کے باہر تھوکنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔
 
Top