کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے
خدا جانے یہ کیا آفت ہے آفت آ ہی جاتی ہے
وہ کیسے ہی چلیں تھم تھم قیامت آ ہی جاتی ہے
بچے کوئی کسی ڈھب سے پہ شامت آ ہی جاتی ہے
ستم کر کے ستم گر کی نظر نیچی ہی رہتی ہے
برائی پھر برائی ہے ندامت آ ہی جاتی ہے
زلیخا بے خرد آوارہ لیلیٰ بد مزہ شیریں
سبھی مجبور ہیں دل سے محبت آ ہی جاتی ہے
اگر ہو قول جرنل کا ،تو پھر یہ بن ہی جاتی ہے