حاتم راجپوت
لائبریرین
یہ میرے چھت سے شمال مغرب کا منظر۔۔۔سامنے پیلے گنبد والی مسجد ہے اور اس سے آگے سبز گنبد قبرستان حجرہ شاہ مقیم ہے۔
گھر سے کچھ آگے کھیتوں میں۔۔۔ دور نظر آنے والی سرخ عمارت لڑکیوں کا ہائی سکول ہے۔
ہمارے گاؤں کی مشترکہ عید گاہ۔۔۔ بادلوں سے نکلتی شعاعیں طلسماتی سا منظر پیش کر رہی ہیں۔۔
نور گڑھا۔۔۔ بہت پہلے ہمارے گاؤں میں دو تالاب تھے، نور گڑھا اور ماتا رانی،، نور گڑھا مسلمانوں کے استعمال کے لئے مخصوص تھا اور ماتا رانی ہندوؤں کے۔۔۔ پارٹیشن کے بعد بہت کم ہندو یہاں رکے، زیادہ تر چلے گئے لہذاٰ ماتا رانی بھی گھٹنے لگا اور اب کچھ سال پہلے مکمل طور پر نابود ہو چکا ہے۔۔
میرے چھت سے گاؤں کا جنوب مغربی حصہ۔۔ سردیوں کی ایک طلوع ہوتی صبح۔۔
شہر خموشاں سے ایک اداس شام۔۔۔
مغربی سمت سے گاؤں کی لی گئی ایک تصویر۔۔ اور سہ پہر کے ڈھلتے سائے۔۔
جنوب مغربی سمت میں واقع ایک چھوٹا سا تالاب (نور گڑھا) اور پس منظر میں ڈوبتا سورج۔۔۔ دھیمی سی شعاعیں پانی کی سطح سے منعکس ہوتے ہوئے۔۔
ہلکی سی بوندا باندی کے بعد نکھری ہوئی رہگزر۔۔۔
یہ ہندوؤں کا شمشان گھاٹ۔۔۔ ”مڑھیاں“ کہلاتا ہے، ہمارے گاؤں کے جنوب میں واقع ہے،نالہ پلکھو کے کنارے۔۔۔
گزری خزاں اور بہارِ رواں۔۔ خزاں رسیدہ کچھ پتے اور تازہ پھول کچھ کیکر کے۔۔۔
ہمارے گاؤں کا دوسرا تالاب۔۔۔ یہ ”بورے والی چھپڑی“ کہلاتا ہے۔۔۔
گاؤں کی شمالی سمت۔۔۔ اور سبز لہلاتی کھیتیاں۔۔۔
گاؤں کے مشرقی اُفق پر بکھری قوس و قزح۔۔۔
پانی کی سطح کی ایک تصویر۔۔۔ کیمرہ اور پانی میں بس ایک دو سینٹی میٹر جتنا ہی فاصلہ رہ گیا تھا۔۔
ہمارے گاؤں کے انتہائی شمال میں واقع ایک نالہ۔۔۔ کسی وقت میں یہ بپھر کر سیلابی تباہی مچاتا تھا۔۔ لیکن اب امتدادِ زمانہ سے متاثر ہو کہ صرف ایک تالاب کی شکل اختیار کر گیا ہے۔۔
گاؤں کے انتہائی مغرب میں کھیتوں میں لگا ایک کھمبا۔۔۔ ڈھلتی زرد شام کے تناظر میں اُداس کھڑا ہے۔
سرسوں کے زرد کھیت۔۔۔ اکیلا کیکر۔۔۔ اور ڈھلتی شام۔۔۔
میرے گھر کی دوسری منزل کے صحن سے مشرقی سمت۔۔۔ لڑکیوں کے پرائمری اسکول میں واقع پیپل کا درخت،کم و بیش تین سو سال پرانا ہے،اس کے بارے مشہور تھا کہ آسیبی ہے، ہم نے ایک دفعہ پتا چلانے کی کوشش کی۔۔ پتا تو چل گیا لیکن وہ دن اور آج کا دن۔۔۔اب ہم کبھی اِس کے پاس پھٹکتے بھی نہیں۔۔
شام کے وقت سیاہ بادلوں سے گھرے آسمان سے سورج کی آخری جھلک۔۔۔
آخری تدوین: