فاتح
لائبریرین
ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر
عالم ہے ہُو کا قبرِ سکندر کے آس پاس
مجمع لگا ہوا ہے قلندر کے آس پاس
خوابوں کو عاق کر کے نکالا ہی تھا ابھی
بازار لگ گیا ہے مرے گھر کے آس پاس
شاید اسی میں حسرتیں دفنا رہا ہوں میں
سگرٹ کی راکھ بکھری ہے بستر کے آس پاس
ابھرا ستارۂ سحَری ڈوب بھی گیا
سوتا رہا میں لوحِ مقدر کے آس پاس
تصویر ہاتھ میں تھی تصور دماغ میں
منظر تھا مجھ میں اور میں منظر کے آس پاس
فاتح الدین بشیرؔ
مجمع لگا ہوا ہے قلندر کے آس پاس
خوابوں کو عاق کر کے نکالا ہی تھا ابھی
بازار لگ گیا ہے مرے گھر کے آس پاس
شاید اسی میں حسرتیں دفنا رہا ہوں میں
سگرٹ کی راکھ بکھری ہے بستر کے آس پاس
ابھرا ستارۂ سحَری ڈوب بھی گیا
سوتا رہا میں لوحِ مقدر کے آس پاس
تصویر ہاتھ میں تھی تصور دماغ میں
منظر تھا مجھ میں اور میں منظر کے آس پاس
فاتح الدین بشیرؔ