محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
ایک خوبصورت شعر؟ میں نے تو دو پیش کیے ہیں ایک اپنا اور دوسرا غالب کا۔ غالبا غالب کے شعر کو ہی خوبصورت کہا ہے آپ نے۔واہ ۔۔۔ بہت خوب ۔۔۔ ایک خوبصورت شعر شریک محفل کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔
ایک خوبصورت شعر؟ میں نے تو دو پیش کیے ہیں ایک اپنا اور دوسرا غالب کا۔ غالبا غالب کے شعر کو ہی خوبصورت کہا ہے آپ نے۔واہ ۔۔۔ بہت خوب ۔۔۔ ایک خوبصورت شعر شریک محفل کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔
معذرت چاہتا ہوں کہ جواب ظفری صاحب کے مراسلے کا تھا۔۔۔آپ کا مراسلہ تو بعد میں پڑھا میں نے۔۔ شاید نیٹ سپیڈ کا کوئی مسئلہ ہے۔۔ایک خوبصورت شعر؟ میں نے تو دو پیش کیے ہیں ایک اپنا اور دوسرا غالب کا۔ غالبا غالب کے شعر کو ہی خوبصورت کہا ہے آپ نے۔
آج کی لغت میں غم غلط نہیں کیئے جاتے بلکہ صحیح کیئے جاتے ہیں ۔
سو اسی کشمکش سے دوچار تھے کہ غالب کی پیروی کریں کہ " مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں " یا پھراقبال کی مریدی اختیار کریں کہ "تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب " ۔ بس جی پھر یوں ہوا کہ نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے ۔
گویا آپ سلسلۂ غالبیہ، اقبالیہ و صادقیہ کے گدی نشین قرار پاتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ کی اتنی گدیوں کو دیکھ کر جو آئے گی وہ دستِ عقد کی بجائے دست بیعت پیش کرے گی۔بجا فرمایا آپ نے کہ یہ شعر جناب صادق حسین شاہ ایڈوکیٹ صاحب کا ہے ۔ چلیں پھر میں اپنی مریدی کا سلسلہ انہی کی طرف موڑ دیتا ہوں کہ
صبح صادق مجھے مطلوب ہے میں کس سے کہوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے
بہت شکریہ حاتم راجپوت صاحب۔ ممنون ہوںمچلتے دل کو پھر سے مثالِ ٖغم دینے کیلئے۔۔۔
لانا پڑا ہے خود کو ایسے شاعر کے آس پاس۔۔
بہت عمدہ کلام۔۔ بہت خوبصورت انداز۔۔
ہماری طرف سے بہت سی داد قبول فرمائیے۔۔۔
یہ سراسر آپ کی ذرہ نوازی و محبت ہے اسامہ صاحب۔ خوش رہیےسیروں بڑھا دیا ہے غزل نے ہمارا خوں
کھانے لگے بجائے ”چقندر“ کے ”آس پاس“
کمال کی غزل ہے فاتح صاحب!
آپ لکھتے ہیں ، گویا ہمارے دلوں کے دروازوں پر اس زور کی دستک دیتے ہیں کہ وہ خود کھل کر آپ سے کہتے ہیں آئیے فاتح صاحب اور فتح کرلیجیے۔
غالب کے اس شعر کے موافق:
دل کو اظہارِ سخن اندازِ فتح الباب ہے
یاں صریرِ خامہ غیر از اصطکاکِ در نہیں
یہی تو مسئلہ درپیش ہے کہ دستِ عقد کے بجائے دستِ بیعت سامنے آجاتا ہے ۔ اور پھر ہم اسے دعاؤں کیساتھ رخصت کردیتے ہیں ۔گویا آپ سلسلۂ غالبیہ، اقبالیہ و صادقیہ کے گدی نشین قرار پاتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ کی اتنی گدیوں کو دیکھ کر جو آئے گی وہ دستِ عقد کی بجائے دست بیعت پیش کرے گی۔
بہت شکریہ راجا صاحب۔ پذیرائی پر ممنون ہوں۔شاید اسی میں حسرتیں دفنا رہا ہوں میں
سگرٹ کی راکھ بکھری ہے بستر کے آس پاس
ابھرا ستارۂ سحَری ڈوب بھی گیا
سوتا رہا میں لوحِ مقدر کے آس پاس
واہ واہ فاتح صاحب کیا ہی عمدہ غزل ہے، ڈھیروں داد قبول ہو جنابِ من
بس تو ذرا گدّیوں کی تعداد کم کر لیجیےیہی تو مسئلہ درپیش ہے کہ دستِ عقد کے بجائے دستِ بیعت سامنے آجاتا ہے ۔ اور پھر ہم اسے دعاؤں کیساتھ رخصت کردیتے ہیں ۔
لیکن گدیوں کی تعداد کم کرنے سے دستِ عقد و بیعت کی تعداد کم ہونے کا بھی خطرہ ہے۔۔ ایسے وقت میں تو دست ِ غیب کی دعا مانگنی پڑے گی۔۔بس تو ذرا گدّیوں کی تعداد کم کر لیجیے
اجی آپ تعداد کم کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ ہم نے تو ہر چیز ہی نیچے سے کھینچ لی ہے سوائے زمین کے ۔ مگر پھر بھی " کوئی اُمید بر نہیں آتی "بس تو ذرا گدّیوں کی تعداد کم کر لیجیے
ایک گدی جس کی وجہ سے دستِ بیعت عموما نیتِ عقد سے آتا ہے وہ تو آپ کے پاس بخیر و خوبی موجود( )ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ ''منڈا مریکا چہ ہُندا اے''اجی آپ تعداد کم کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ ہم نے تو ہر چیز ہی نیچے سے کھینچ لی ہے سوائے زمین کے ۔ مگر پھر بھی " کوئی اُمید بر نہیں آتی "
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بہت رہ لیئے یہاں ، مستقبل بعید میں پاکستان میں رہیں گے تو پھرساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ " کوئی صورت نظر نہیں آتی " ۔ایک گدی جس کی وجہ سے دستِ بیعت عموما نیتِ عقد سے آتا ہے وہ تو آپ کے پاس بخیر و خوبی موجود flag ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ ''منڈا مریکا چہ ہُندا اے''
لیکن اس کے باوجود مجھے آپ کی یہ بات کہ ''کوئی امید بر نہیں آتی'' کی سمجھ نہیں آئی۔
حیرت ہے کہ'' حقوق نسواں'' کے اس دور میں آپ کی اس innocent prediction کو کچھ مستورات ''قابل اعتنا'' جانتی ہیں۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بہت رہ لیئے یہاں ، مستقبل بعید میں پاکستان میں رہیں گے تو پھر کہنا پڑتا ہے کہ " کوئی صورت نظر نہیں آتی " ۔
بس جی کیا کہیں سوائے اس کہ :حیرت ہے کہ'' حقوق نسواں'' کے اس دور میں آپ کی اس innocent prediction کو کچھ مستورات ''قابل اعتنا'' جانتی ہیں۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ ۔۔ کمال کر دیا آپ نے تو، غضب کا شعر دے مارا ۔۔ بہت خوببس جی کیا کہیں سوائے اس کہ :
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں، اگر، واں ہوگئیں
اور وہ دوسرے کھینچ لیتے ہیںاجی آپ تعداد کم کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ ہم نے تو ہر چیز ہی نیچے سے کھینچ لی ہے سوائے زمین کے ۔ مگر پھر بھی " کوئی اُمید بر نہیں آتی "
بجا فرمایا آپ نے جناب ۔۔۔۔ ایسا تجربہ بارہا ہوچکا ہے مگر ہم بھی ڈھیٹ ہیں کہ اس حال میں بھی توازن قائم کر لیتے ہیں ۔ کیا ہوا گر " نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں "اور وہ دوسرے کھینچ لیتے ہیں