مجمع لگا ہوا ہے قلندر کے آس پاس ۔ فاتح الدین بشیر

ایم اے راجا

محفلین
شاید اسی میں حسرتیں دفنا رہا ہوں میں
سگرٹ کی راکھ بکھری ہے بستر کے آس پاس

ابھرا ستارۂ سحَری ڈوب بھی گیا
سوتا رہا میں لوحِ مقدر کے آس پاس

واہ واہ فاتح صاحب کیا ہی عمدہ غزل ہے، ڈھیروں داد قبول ہو جنابِ من
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
ایک خوبصورت شعر؟ میں نے تو دو پیش کیے ہیں ایک اپنا اور دوسرا غالب کا۔ غالبا غالب کے شعر کو ہی خوبصورت کہا ہے آپ نے۔
معذرت چاہتا ہوں کہ جواب ظفری صاحب کے مراسلے کا تھا۔۔۔آپ کا مراسلہ تو بعد میں پڑھا میں نے۔۔ شاید نیٹ سپیڈ کا کوئی مسئلہ ہے۔۔
اورجناب آپ کے دونوں اشعار بھی اپنی مثال آپ ہیں۔۔ دوسرا تو بارہا سن چکے ہیں۔ لیکن ''آپ ''کے شعر نے خوب محظوظ کیا۔۔۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
آج کی لغت میں غم غلط نہیں کیئے جاتے بلکہ صحیح کیئے جاتے ہیں ۔;)
سو اسی کشمکش سے دوچار تھے کہ غالب کی پیروی کریں کہ " مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں " یا پھراقبال کی مریدی اختیار کریں کہ "تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب " ۔ بس جی پھر یوں ہوا کہ نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے ۔ :lol:
بجا فرمایا آپ نے کہ یہ شعر جناب صادق حسین شاہ ایڈوکیٹ صاحب کا ہے ۔ چلیں پھر میں اپنی مریدی کا سلسلہ انہی کی طرف موڑ دیتا ہوں کہ
صبح صادق مجھے مطلوب ہے میں کس سے کہوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے
گویا آپ سلسلۂ غالبیہ، اقبالیہ و صادقیہ کے گدی نشین قرار پاتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ کی اتنی گدیوں کو دیکھ کر جو آئے گی وہ دستِ عقد کی بجائے دست بیعت پیش کرے گی۔;)
 

فاتح

لائبریرین
مچلتے دل کو پھر سے مثالِ ٖغم دینے کیلئے۔۔۔
لانا پڑا ہے خود کو ایسے شاعر کے آس پاس۔۔

بہت عمدہ کلام۔۔ بہت خوبصورت انداز۔۔
ہماری طرف سے بہت سی داد قبول فرمائیے۔۔۔ :)
بہت شکریہ حاتم راجپوت صاحب۔ ممنون ہوں
 

فاتح

لائبریرین
سیروں بڑھا دیا ہے غزل نے ہمارا خوں
کھانے لگے بجائے ”چقندر“ کے ”آس پاس“

کمال کی غزل ہے فاتح صاحب!
آپ لکھتے ہیں ، گویا ہمارے دلوں کے دروازوں پر اس زور کی دستک دیتے ہیں کہ وہ خود کھل کر آپ سے کہتے ہیں آئیے فاتح صاحب اور فتح کرلیجیے۔
غالب کے اس شعر کے موافق:
دل کو اظہارِ سخن اندازِ فتح الباب ہے
یاں صریرِ خامہ غیر از اصطکاکِ در نہیں
یہ سراسر آپ کی ذرہ نوازی و محبت ہے اسامہ صاحب۔ خوش رہیے
 

ظفری

لائبریرین
گویا آپ سلسلۂ غالبیہ، اقبالیہ و صادقیہ کے گدی نشین قرار پاتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ کی اتنی گدیوں کو دیکھ کر جو آئے گی وہ دستِ عقد کی بجائے دست بیعت پیش کرے گی۔;)
یہی تو مسئلہ درپیش ہے کہ دستِ عقد کے بجائے دستِ بیعت سامنے آجاتا ہے ۔ اور پھر ہم اسے دعاؤں کیساتھ رخصت کردیتے ہیں ۔ :idontknow:
 

فاتح

لائبریرین
شاید اسی میں حسرتیں دفنا رہا ہوں میں
سگرٹ کی راکھ بکھری ہے بستر کے آس پاس

ابھرا ستارۂ سحَری ڈوب بھی گیا
سوتا رہا میں لوحِ مقدر کے آس پاس

واہ واہ فاتح صاحب کیا ہی عمدہ غزل ہے، ڈھیروں داد قبول ہو جنابِ من
بہت شکریہ راجا صاحب۔ پذیرائی پر ممنون ہوں۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اجی آپ تعداد کم کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ ہم نے تو ہر چیز ہی نیچے سے کھینچ لی ہے سوائے زمین کے ۔ مگر پھر بھی " کوئی اُمید بر نہیں آتی " :thinking:
ایک گدی جس کی وجہ سے دستِ بیعت عموما نیتِ عقد سے آتا ہے وہ تو آپ کے پاس بخیر و خوبی موجود( :flag: )ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ ''منڈا مریکا چہ ہُندا اے'' ;)
لیکن اس کے باوجود مجھے آپ کی یہ بات کہ ''کوئی امید بر نہیں آتی'' کی سمجھ نہیں آئی۔ :thinking:
 

ظفری

لائبریرین
ایک گدی جس کی وجہ سے دستِ بیعت عموما نیتِ عقد سے آتا ہے وہ تو آپ کے پاس بخیر و خوبی موجود :)flag:) ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ ''منڈا مریکا چہ ہُندا اے'' ;)
لیکن اس کے باوجود مجھے آپ کی یہ بات کہ ''کوئی امید بر نہیں آتی'' کی سمجھ نہیں آئی۔ :thinking:
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بہت رہ لیئے یہاں ، مستقبل بعید میں پاکستان میں رہیں گے تو پھرساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ " کوئی صورت نظر نہیں آتی " ۔ :idontknow:
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بہت رہ لیئے یہاں ، مستقبل بعید میں پاکستان میں رہیں گے تو پھر کہنا پڑتا ہے کہ " کوئی صورت نظر نہیں آتی " ۔ :idontknow:
حیرت ہے کہ'' حقوق نسواں'' کے اس دور میں آپ کی اس innocent prediction کو کچھ مستورات ''قابل اعتنا'' جانتی ہیں۔ ;)
 

ظفری

لائبریرین
حیرت ہے کہ'' حقوق نسواں'' کے اس دور میں آپ کی اس innocent prediction کو کچھ مستورات ''قابل اعتنا'' جانتی ہیں۔ ;)
بس جی کیا کہیں سوائے اس کہ :

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں، اگر، واں ہوگئیں
:heehee:
 

ظفری

لائبریرین

جیہ

لائبریرین
ایک فضول سی غزل پر بے سرو پا تبصرے۔۔۔


























مذاق مذاق مذاق

مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے
 
Top