اُستاد صاحب
اُس شوخ کے چہرے پر، وہ جلوہ بلا کا تھا
رخسار پہ رہ رہ کر، شعلہ سا مچلتا تھا
مہتاب کی ضو بھی تھی، خورشید کی حدت بھی
میں اور بتاؤں کیا، اُس رخ پہ عیاں کیا تھا
اُس شعلہ نظر نے تھی، جس جس پہ نگہ ڈالی
نظروں کی حرارت سے ہر جسم پگھلتا تھا
وہ میر کے مصرعوں کی تمثیل سراپا تھا
ہر لفظ...