عرض کیا ہے
دامِ ظلمت سے مرے دل کو چھڑایا جائے
کوئی مہتاب لبِ بام بلایا جائے
حسرتِ دید کا اتنا سا تقاضا ہے فقط
رُخ سے چلمن کو بہر طور ہٹایا جائے
اُن کا یوں صرفِ نظر کرنا سر آنکھوں پر ہے
ہاں مگر اس کا سبب بھی تو بتایا جائے
ٹوٹ جائے نہ کہیں عزمِ شکیبائی مرا
کب تلک آپ کو احساس دلایا جائے؟
وہ...