محترم اساتذہ کرام
میری اس غزل کو انتظامیہ کی جانب سے اصلاحِ سخن زُمرہ میں منتقل کیا گیا تھا۔ آپکی رہنمائی کا منتظر تاکہ غزل کی اصلاح ہو سکے ۔ بہت شُکریہ
تیرے تبسم کو سبھی دُکھ کی دوا سمجھا تھا میں
اور نقشِ پا کی خاک کو خاکِ شفا سمجھا تھا میں
لالچ ،خیانت، جھوٹ سے بھی ماورا سمجھا تھا میں
وُہ راہزن تھے لوگ جن کو رہنُما سمجھا تھا میں
بس بندوبست تھا ایک میرے باندھ لینے کے لیے
جس کاکلِ خمدار کو...
یہ جیون بوجھ ہے مُجھ پر ،گذر جائے تو بہتر ہے
گیا ہوں تھک اُٹھانے سے ، اُتر جائے تو بہتر ہے
غموں کی دھوپ رہتی ہے ہمیشہ صحن میں میرے
کبھی چھاؤں ،اگر سُکھ کی، ٹھہر جائے تو بہتر ہے
بھیانک موڑ آتے ہیں کُچھ آگے عشق میں چل کر
جو بندہ ابتدا میں ہی...
حق تو یہ ہے انہیں سراب لکھوں
تیرے وعدوں کو نقشِ آب لکھوں
خط میں ممکن نہیں جواب لکھوں
ہو اجازت تو اک کتاب لکھوں
انگلش ہو گئے ہیں اردو سے
آپ کو سر لکھوں ، جناب لکھوں
چاند جل جائے گا حسد میں اگر
میں ترا عالمِ شباب لکھوں...
دوستوں سے ادھار لیتا ہوں
یوں مہینہ گذار لیتا ہوں
اِس غریبی میں اُس کو پانے کی
دل کی خواہش کو مار لیتا ہوں
جب مرے بس میں کُچھ نہیں رہتا
تب خدا کو پکار لیتا ہوں
پیار کے زہر میں بُجھے خنجر
روز دل میں اتار لیتا ہوں
آئے جس در سے بھی...