بساط بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش، سبو چپ، اداس پیمانے
نہ اب وہ جلوۂ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور، نہ اب وہ دیوانے
نہ حرف حق، نہ وہ منصور کی زباں، نہ وہ دار
نہ کربلا، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے
نہ بایزید، نہ شبلی، نہ اب جنید کوئی
نہ اب و سوز، نہ آہیں، نہ ہاؤ ہو خانے...