وہ تو ہمارے ہاں صوابی میں بھی خانہ بدوش اونٹنیاں ساتھ لئیے پھرتے ہیں۔سو روپے لیٹر۔ کئی بار پیا ہے۔اونٹنی کے دودھ کا ذائقہ گائے کے دودھ سے اچھا ہوتا ہے۔ لیکن پیٹ میں گھڑگھڑاہٹ سی ہوتی ہے۔
یہ تو گھر کے سامنے پڑوس والوں کی ہیں۔ پیچھے درخت سفیدار کے ہیں میری فصل گھر کے پیچھے ہے۔ہماری زمین گزارے لائق ہے۔گھر کا اناج اور تمباکو اور مٹر سے نقدی مل جاتی ہے
آج کل بھی بچے بلکہ بڑے بھی ایسا ہی کرتے ہیں بعض لوگ تو فصل کی چوکیداری بھی کرتے ہیں۔کچی مکئی جو نہ زیادہ سخت ہو نہ نرم اسے توے پر گھی ڈال کر براؤن کیا جاتا ہے جو بہت مزے کے ہوتے ہیں۔
مٹر کے لیے زمین تیار کر رہے ہیں اور مکئی کی فصل تیار ہونے کے قریب ہے۔
افسوس کی بات اس لیے ہے کہ اگر ٹاپ یونیورسٹی یہ ہے تو اور یونیورسٹیوں کا کیا حال ہوگا۔