داغ دل کی لگی کا باقی ہے
درد اک بے کلی کا باقی ہے
ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض
روگ دیوانگی کا باقی ہے
باقی رستے سبھی تمام ہوئے
پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے
نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی
قرض پچھلی صدی کا باقی ہے
اور باقی نہیں ہے کوئی کمال
اک ہنر بندگی کا باقی ہے
گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر
جاہ اس...