غزل
(وسیم بریلوی)
میں اِس اُمید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا
اب اس کے بعد میرا امتحان کیا لے گا
یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر ایک اپنا راستہ لے گا
میں بُجھ گیا تو ہمیشہ کو بُجھ ہی جاؤں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں جو پھر جلا لے گا
کلیجہ چاہیئے دشمن سے دشمنی کے لئے
جو بے عمل ہے...
غزل
(نواز دیوبندی)
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مُسکرایا دیر تک
بھولنا چاہا کبھی اُس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بےساختہ میں ہنس پڑا
اُس نے اِس درجہ رُلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلّی کے لیئے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گُنگُناتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ...
غزل
(خمار بارہ بنکوی)
نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے
سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے
وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائیِ دائمی ہے
کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں...
کسی کے روبرو اُن کا پیام آیا تو کیا ہوگا
ہمارے بھی لبوں پر اُن کا نام آیا تو کیا ہوگا
کسی کے ظلمِ بیجا پر اگر میں مُسکرا بھی دوں
جو آنسو بن کے جوشِ انتقام آیا تو کیا ہوگا
(ممتاز لکھنوی)
غزل
(طاہر فراز)
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نیرالا ہے
آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو
شاید کوئی آنسو آنے والا ہے
چاند کو جب سے اُلجھایا ہے شاخوں نے
پیڑ کے نیچے بےترتیب اُجالا ہے
خوشبو نے دستک دی تو احساس ہوا
گھر کے در و دیوار پہ کتنا جالا ہے
اس دنیا میں اپنے غم سے آج پریشاں کوئی نہیں
اوروں کا سکھ دیکھ کے اب تو لوگ دکھی ہوجاتے ہیں
اب کے منصف سے ملنا تو اتنی بات بتا دینا
جن کا حق چھینا جاتا ہے وہ باغی ہوجاتے ہیں
(جوہر کانپوری)