عید آنے کو ہے
میں نے سوچا بہت
پھول بھیجوں کہ مہکار بھیجوں اسے
چند کلیوں سے شبنم کے قطرے لیے
اس کے رخسار پر آنسوؤں کی طرح
خوبصورت لگیں گے اسے بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں
اس کے عارض کہاں؟ گُل کی پتیاں کہاں؟
اس کے آنسو کہاں؟ شبنم کے قطرے کہاں؟
میرے خاموش خدا کو کہنا
شور بڑھ گیا ہے کتنا تو
شہر کا شہر ہو گیا ہے بہرا
گونگے الفاظ تڑپ رہے ہیں حلق میں
کون ہے کون، جو بات کرے؟
وحشتوں کو بندھی ہوئی ہیں پگڑیاں
زندہ جہنم کی کھانی ہے
یہ جو زور سے بج رہے ہیں لاؤڈ اسپیکر
بھڑکا رہا ہے آگ ان میں سے کوئی
سید عمران وقت آ گیا ہے کہ وہ جن کو اللہ نے کچھ عطا کیا ہے وہ اللہ کی اس عطا میں سے زکوٰۃ و فطر کے علاوہ بھی کچھ دان کریں کیونکہ آدھے پاکستان کی آبادی اب غربت کی لکیر کو پار کر چکی ہے۔