درپیش کوئی سفر نہیں
کوئی آشیاں کوئی گھر نہیں
دریا میں گہرا سکوت ہے
لہروں میں کوئی بھنور نہیں
میرے ہاتھ میں کوئی ہاتھ ہے
ظاہر کوئی پیکر نہیں
جو بنیں جمالِ نگاہ و دل
وہ بصارتوں کے گہر نہین
کیوں مان لوں زندہ اسے
جو مریضِ شوقِ سفر نہیں
ہوں جس کی صدیوں سے منتظر
اسے میری کوئی خبر...