لوچ تیری ادا میں کچھ بھی نہیں
پیچ بندِقبا میں کچھ بھی نہیں
کتنا سادہ مرض ہے چارہ گرو
درد ہے اور دوا میں کچھ بھی نہیں
حاصلِ عمر ہاتھ آیا کیا
اک خلا اور خلا میں کچھ بھی نہیں
زلف کھولی ہے تم نے شائد آج
ورنہ خوشبو ہوا میں کچھ بھی نہیں
کیسے پرنم ہو کوئی آنکھ شکیلؔ
سوز تیری نوا میں کچھ بھی نہیں