نتائج تلاش

  1. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے

    محترم الف عین صاحب سے نظرِ التفات کی درخواست ہے
  2. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے

    محترم الف عین صاحب سے نظرِ التفات کی درخواست ہے
  3. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے

    درد ظاہر نہ یوں کیا کیجے بے سبب مسکرا لیا کیجے ہوش میں ضبطِ غم نہیں ممکن آپ مدہوش ہی جیا کیجے سر پہ تہمت جنوں کی آئے نہ چاک دامن کے خود سیا کیجے خامشی الجھنیں بڑھاتی ہے بات جو بھی ہو کہہ دیا کیجے میکدے سے تو لوٹ آئے شکیل ان کی آنکھوں سے اب پیا کیجے
  4. محمد شکیل خورشید

    طالبِ اصلاح

    شکریہ محترم کسی اور طرح باندھنے کی کوشش کرتا ہوں
  5. محمد شکیل خورشید

    طالبِ اصلاح

    استادِ محترم حوصلہ افزائی کا شکریہ، میں نے تو پہیلی والے معنوں میں ہی استعمال کرنا چاہا تھا، زمانے کے دوغلے پن کی روش کے حوالے سے، کیا اس طرح سے بھی استعمال درست نہ ہوگا؟ رہنمائی درکار ہے والسلام
  6. محمد شکیل خورشید

    طالبِ اصلاح

    عشق کرنے لگا ہوں میں پھر سے تم پہ مرنے لگا ہوں میں پھر سے زہر آلود ہو گیا لہجہ خود سے ڈرنے لگا ہوں میں پھر سے ضبط کے توڑ کر سبھی بندھن آہ بھرنے لگا ہوں میں پھر سے سیکھ لی ہے روش زمانے کی کہہ مکرنے لگا ہوں میں پھر سے اس کے آنے کی ہے نوید شکیل لو سنورنے لگا ہوں میں پھر سے
  7. محمد شکیل خورشید

    محفل کے جِن بھوت

    جِن بُھوتوں کے حوالے سے کئی سال پہلے لکھی ایک مختصر نظم پیش ہے ہم ناداں! اک بچے جیسے خود جِن کی تصویر بنا کے خود اس سے ڈر جاتے ہیں ہم ناداں، اک بچے جیسے
  8. محمد شکیل خورشید

    اگلی غزل برائے اصلاح

    حوصلہ افزائی کا شکریہ، استادِ محترم!
  9. محمد شکیل خورشید

    اگلی غزل برائے اصلاح

    استادِ محترم! شائد کوئی غلط فہمی ہے، یہ تو کل ہی لکھی اور آپ کی خدمت میں پیش کردی
  10. محمد شکیل خورشید

    محفل کے جِن بھوت

    بقول شخصے "وہ بھی کیا دن تھے جب ہم جن تھے اب ہم دیو ہیں بنوں کے بھی پیو ہیں"
  11. محمد شکیل خورشید

    اگلی غزل برائے اصلاح

    آنکھ میں اک سوال ہوتا ہے بس یونہی عرضِ حال ہوتا ہے بات میں بھی تھکن جھلکتی ہے اور لہجہ نڈھال ہوتا ہے بس کسی دن وہ یاد آتے ہیں اور وہ دن کمال ہوتا ہے ایک لمحہ تری جدائی میں جیسے فرقت کا سال ہوتا ہے رنج تو عشق نے اٹھائے ہیں حسن کیوں پُر ملال ہوتا ہے شہر میں یہ سکوت ہے یا حبس سانس لینا محال ہوتا...
  12. محمد شکیل خورشید

    محفل کے جِن بھوت

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں شاعری کے سوا۔۔۔۔۔ فیض سے معذرت کے ساتھ ویسے سنجیدہ جواب یہ کہ درمیان میں ایک طویل غیر حاضری کے بعد حال ہی میں دوبارہ محفل میں شرکت کی، پچھلے دو ہفتوں میں تین غزلیں اصلاح کے لئے عرض گذاریں، انشااللہ باقاعدگی سے حاضری کا اہتمام کرنے کی کوشش جاری ہے
  13. محمد شکیل خورشید

    اصلاح کر کے ممنون فرماویں

    فیض صاحب کا کلام ہے آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے اس کے بعد آئے جو عذاب آئے بامِ مینا سے ماہتاب اترے دستِ ساقی میں آفتاب آئے کر رہاتھا غمِ جہاں کا حساب آج تم یاد بے حساب آئے
  14. محمد شکیل خورشید

    اصلاح کر کے ممنون فرماویں

    اصلاح تو اساتذہ فرمایئں گے، عمومی خیال اچھا لگا
  15. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے ایک اور غزل کی

    رہنمائی کا شکریہ! شائد میرے اپنے ذہن میں کوئی ربط ہوتا ہے جو الفاظ میں ڈھل نہیں پاتا، اور دوسروں تک نہیں پہنچ پاتا، ۔۔۔۔ اور چونکہ میرے اپنے ذہن میں وہ ناموجود ربط موجود ہوتا ہے تو یہ خامی میری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ تشخیص تو ہو گئی اب تدارک کیا ہو سکتا ہے ؟ کوئی ٹیسٹ، کوئی پیمانہ؟ رہنمائی کا...
  16. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے ایک اور غزل کی

    حوصلہ افزائی کا شکریہ مطلع کے دو لخت ہونے کی خامی میری اکثر غزلوں میں ہوتی ہے، نوازش ہو گی اگر اس پر ذرا تفصیلی رہنمائی فرمادیں، جیسے نشاندہی کیسے ہو، تدارک کیا ہے وغیرہ پیشگی شکریہ کے ساتھ رہنمائی کا منتظر
  17. محمد شکیل خورشید

    اصلاح درکار ہے ایک اور غزل کی

    ہجر کی رات یاد آئی نہیں دل کی برسات یاد آئی نہیں ان سے کرنی تھی کچھ ضروری بات بس وہی بات یاد آئی نہیں ان سے نسبت کی بات کر بیٹھا اپنی اوقات یاد آئی نہیں کب گرفتارِ دامِ ناز ہوئے وہ ملاقات یاد آئی نہیں کُل جہاں جس کے اختیار میں ہے ایک وہ ذات یاد آئی نہیں کھیل بیٹھے ہیں اور اک بازی عشق...
  18. محمد شکیل خورشید

    سچ کہا نہیں جاتا

    استادِ محترم توجہ فرمانے کا شکریہ، صرف اپنے علم میں بہتری کے لئے پوچھ رہا ہوں جیسے ہم زخم وغیرہ دیکھ کر کہہ دیتے ہیں "بہت خون بہے جا رہا ہے" یعنی خون بہنے سے روکنے کی طرف توجہ دلانے کے انداز میں، تو کیا یہ غلط استعمال ہے
  19. محمد شکیل خورشید

    سچ کہا نہیں جاتا

    محترم اساتذہ سے رہنمائی کی درخواست ہے خصوصاََ الف عین صاحب سے
  20. محمد شکیل خورشید

    سچ کہا نہیں جاتا

    سچ کہوں ، سچ کہا نہیں جاتا بن کہے بھی رہا نہیں جاتا چوٹ ہو گی کوئی بڑی گہری خون یونہی بہا نہیں جاتا اے ستم گر ذرا توقف کر درد پیہم سہا نہیں جاتا اس کو شائد کچھ انس ہے مجھ سے وہم یہ بار ہا نہیں جاتا مجھ پہ بیتا ہے عشق میں جو شکیل سانحہ وہ کہا نہیں جاتا
Top