اور کیا ساماں بہم بہرِ تباہی چاہیے
حسنِ لب بستہ سے ذوقِ کم نگاہی چاہیے
جانثاری مشغلہ ہی سمجھیے عشاق کا
روزِ محشر آپ کی لیکن گواہی چاہیے
ہم لیے پھرتے ہیں کاندھوں پر جہاں داری کا بوجھ
اور ضد یہ ہے، غرورِ کج کلاہی چاہیے
بسکہ طالب اپنے دل پر اختیارِ کل کے ہیں
کب سکندر کی سی ہم کو بادشاہی چاہیے
آرزو...