استاد جی یہ فونٹ کا ہی کوئی مسئلہ لگ رہا ہے، اب تو تدوین کا اختیار ختم ہوگیا ہے۔ البتہ عنوان میں مجھے اب بھی صرف استمراری نشان نظر آرہا ہے یعنی الٹا آئی۔
میں اپنے رسالے میں بھی اس علامت کو منادی کے لیے استعمال کرتا ہوں، تاہم مصرع میں تدوین کا اختیار تھا تو وہاں سے یہ علامت حذف کردی ہے، عنوان میں اب اختیار نہیں رہا۔ البتہ علامت ”!“ اور قرآنی علامت ”لا“ کا جوڑ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
تمام اولادِ آدم کی ہدایت کی کہانی ہے
یہ رب کی اپنے بندوں سے محبت کی کہانی ہے
بناتا ہے وہ جو بھی، اس پہ بے حد ناز کرتا ہے
وہ اس کی ہر برائی کونظر انداز کرتا ہے
نظر آئے کوئی خامی تو اس کو دور کرتا ہے
توجہ اس پہ دے کر پیار بھی بھرپور کرتا ہے
خدا ہم سب کا خالق ہے ، وہ ہم سے پیار کرتا ہے
اٹھا کر...
یہ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں۔
”نگہ دار“ اسم فاعل سماعی ہے اس میں ن اور گ متحرک اور ہ ساکن ہیں۔
”نگہِ یار“ مرکب اضافی ہے۔ ”نگہ“ مضاف ہے اور ”یار“ مضاف الیہ ہے اور فارسی کا اصول ہے کہ مضاف کے آخر میں (باستثنائے چند) زیر آتی ہے، لہذا اس صورت میں ”ہ“ مکسور ہے۔
ویسے بہت دنوں سے ذہن میں یہ بات آرہی تھی کہ جو ریٹنگس باہم متضاد نہیں وہ ایک سے زیادہ دینے کا بھی اختیار ہونا چاہیے، مثلا کسی مراسلے پر ہم متفق پسندیدہ زبردست معلوماتی مفید اور پرمزاح کی بیک وقت ریٹنگ لگاسکیں، مگر شاید ان حضرات کی کچھ مجبوریاں بھی ہیں جن سے ہم ناواقف ہیں۔