نتائج تلاش

  1. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    بقیہ نصف انشاءاللہ کسی دوسری نشست میں
  2. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    جہانِ مرگِ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہو گیا ہے کلامِ خدا یعنی خدا کا ہم سے مکالمہ ختم ہو گیاہے نہ تتلیوں جیسی دوپہر ہے نہ اب وہ سورج گلاب جیسا جسے محبت کہا گیا وہ مغالطہ ختم ہو گیاہے اب اس لیے بھی ہمیں محبت کو طول دینا پڑے گا تابش کسی نے پوچھا تو کیا کہیں گے کہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے
  3. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں گلی کے لوگ مرے دل پہ چلنے لگتے ہیں میں اس لیے بھی پرندوں سے دور بھاگتا ہوں کہ ان میں رہ کے مرے پر نکلنے لگتے ہیں کبھی کبھی کسی بچے کی روح آتی ہے کبھی کبھی مرے گھر گیند اچھلنے لگتے ہیں عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی ہمارے سامنے کپڑے بدلنے لگتے ہیں وہ ہاتھ...
  4. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    لفظوں سے چھاؤں وضع کی سطرون کو سائباں کیا جیسے بھی ہو سکا بسر وقتِ زوالِ جاں کیا دل کو کسی کا سامنا کرنے کی تاب ہی نہ تھی اچھا کیا کہ آنکھ نے آنسو کو درمیاں کیا
  5. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    تو نہیں جانتا غالب کے طرفداروں کو جا تجھے چھوڑ دیا ہم نے یگانہ کر کے
  6. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا میں اپنے ہاتھ کا تتلی پہ سایہ کرتا تھا اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا یہ چاند ضعف ہے جس کی زباں نہیں کھلتی کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا عجیب...
  7. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    آنکھ لگتے ہی مری نیند اڑانے لگ جاتے ہیں خواب چڑیوں کی طرح شور مچانے لگ جاتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا نہ ہو یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں دیکھ اے حسنِ فراواں ! یہ بہت ممکن ہے میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں کارِ دنیا بھی عجب ہے کہ مرے گھر والے دن نکلتے ہی مری خیر...
  8. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے
  9. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    تارے بھی تو محور سے نکل جاتے ہیں پیارے آخر کوئی کب تک ترے چکر میں رہے گا
  10. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    جبینِ شوق سے سجدے ٹپکنے والے تھے سو ہم نے اپنے ہی قدموں کو بارگاہ کیا اور اب نگاہ میں جس کو چھپائے پھرتا ہوں اسی چراغ نے ہی آئینہ سیاہ کیا
  11. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    کہیں رستے میں پھینک آئے ہیں اپنی مشعلیں ہم لوگ ہوا کے سامنے ہیں اور ہوا سے ڈر نہیں لگتا
  12. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    یہ پیڑ بھی عجب ہیں ہنستے نہیں کبھی پھولوں کو ضبط کرتے ہیں جذبات کی طرح شہروں سے تنگ اور ہم آہنگ بھی بہت بالکل یہ کنجِ دل ہے مضافات کی طرح
  13. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    کبھی نیندیں کبھی آنکھوں میں پانی بھیج دیتا ہے وہ خود آتا نہیں اپنی نشانی بھیج دیتا ہے بناتا ہے وہ کاغذ پر شجر اور بعد ازاں ان کو مری جانب برائے باغبانی بھیج دیتا ہے
  14. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    سسک رہی ہے اگر بات لفظ کے نیچے تو ایسا کرتے ہیں پتھر ہٹا کے دیکھتے ہیں کسی کی راہ میں پتے بچھا رہا ہے کوئی شجر کی اوٹ سے جھونکےہوا کے دیکھتے ہیں
  15. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    گزشتہ امتوں کی انتہا سے ڈر نہیں لگتا "یہ کیسے لوگ ہیں جن کو خدا سے ڈر نہیں لگتا"
  16. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    شکرگزار ہوں عمر بھائی :)
  17. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    لازم ہے کہ جاگے کبھی بچے کی طرح یہ شہر کسی خواب سے ڈر کیوں نہیں جاتا ملبے سے نکل آتا ہے آسیب کی مانند لوگوں کی طرح خوف بھی مر کیوں نہیں جاتا ملبوس سے کیوں منتِ یکجائی ہے تابش میں ٹوٹ چکا ہوں تو بکھر کیوں نہیں جاتا
  18. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا
  19. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    میری نظروں میں ہے خس خانہ عالم جو بھی سب تری نیم نگاہی کے اشارے تک ہے پہلے ہم ناز اٹھاتے تھے بہت اس دل کے لیکن اب اس کی کفالت بھی گزارے تک ہے
Top