مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گلُ کا تو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
تِرے جام خالی نہ ہو سکے مِری چشمِ تر نہ بھری رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھے رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ...
ج۔۔۔۔واں ہ۔۔و کر زباں ت۔۔یری بتِ بے پ۔۔یر بگ۔۔ڑی ہے
دعا کتنی حسیں تھی جس کی یہ تاثیر بگڑی ہے
وہ می۔را نام لکھتے وق۔ت روئ۔ے ہ۔وں گ۔ےاے قاص۔د
یہاں آنسوُ گرے ہ۔وں گے جہاں ت۔حریر ب۔گ۔ڑی ہ۔ے
مصّ۔ور اپنی صورت مجھ سے پہثانی نہیں جات۔۔۔ی
میں ایسا ہ۔و گیا ہ۔وں یا م۔۔یری ت۔صویر بگ۔۔ڑی ہے
چ۔لا...
کچھ اہلِ ستم ، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
بہت خوب جناب خاص کر یہ دو شعر