بہت شکریہ وارث صاحب یکجا کرنے کا پر میں نے ٹیگ کر کے دیکھا تھا مجھ کو مل نہیں پایا آئندہ دھیان سے سرچ کروں گا
ملائکہ صاحبہ اور سخنور صاحب آپ دونوں کا بھی شکریہ
میں کل مضمون پوسٹ کرتا ہوں میرا پہلا مضمون ہو گا ۔ کوئی بھی اس پر نہیں ہنسے گا
بار بار پڑھتا ہوں اس سے برُُا میں لکھ بھی نہیں سکتا ۔
ماشاء اللہ اتنے اہلِ علم کے درمیان کچھ لکھنا بہت مشکل کام ہے ۔
ُُ
کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں (ناصر کاظمی)
کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پھتّر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچہ دلبر ہی لے چلیں
یہ کہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل...
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے
کیا...
جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی
دل مگر اس پہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار محبّت کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ اآتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ پیار اآتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ...