عشق کا ادعا نہیں کرتے
حسن کو ہم خفا نہیں کرتے
وہ مبادا کہ ہم سے چھپنے لگیں
عرض ہم مدعا نہیں کرتے
”یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں“
جو کسی کا بھلا نہیں کرتے
ان کی آزردگی کا پاس رہے
شکوہ یوں برملا نہیں کرتے
بھرم اہلِ ہوس کا کیسے کھلے
وہ کسی پر جفا نہیں کرتے
کہیں دیوانہ ہی نہ ہو جاؤں
اس قدر بھی وفا...