اب احتیاط کی کوئی صُورت نہیں رہی
قاتِل سے رسم راہ سَوا کرچُکے ہیں ہم
دیکھیں ہیں کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے سِتم میں سب کو خفا کرچُکے ہیں ہم
فیض احمد فیض
تُو نے دیکھی ہیں وہ پیشانی، وہ رُخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصوّر میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھّی ہیں وہ کھوئی ہُوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمْر گنْوادی ہم نے
فیض احمد فیض
دو غزلہ
چاردہ سالی میں رُخ زیرِ نقاب اچھّا نہ تھا
اک نظر میری نظر کو اِنقلاب اچھا نہ تھا
اِس تغیّر سے دلِ خانہ خراب اچھا نہ تھا
تیرا غیروں کی طرح مجھ سے حجاب اچھا نہ تھا
اِس سے گو مائل تھا دل تجھ پر خراب اچھا نہ تھا
کب نشہ آنکھوں کا تیری اے شراب اچھا نہ تھا
بیقراری اور بھی بڑھ کر ہُوئی...
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مُسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مِرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مُسلمان بھی ہو ؟
علامہ اقبال
کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تِرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرہ تِرا
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پُوچھا کِئے
ہم ہنس دئے ، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تِرا
انشا جی