جہاں سے گزرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں
نشانوں میں ان کے قدم دیکھتے ہیں
ہمیں بس عطا ایک ان کی عطا ہے
ہیں ممنون ان کے کرم دیکھتے ہیں
گماں کی حدوں سے یقیں کے خَطوں تک
ستم ہی ستم بس ستم دیکھتے ہیں
ترا تذکرہ خود سے بھی کر نہ پائے
یہ کیسا ستم ہم بہم دیکھتے ہیں
ہیں آزاد لیکن قفس میں مقیّد
تماشا ہے...