دھوپ کو سایہ، زمیں کو آسماں کرتی ہے ماں
ہاتھ رکھ کر میرے سر پر سائباں کرتی ہے ماں
میری خواہش اور میری ضد اس کے قدموں پہ نثار
ہاں کی گنجائش نہ ہوں تو پھر بھی ہاں کرتی ہے ماں
(نواز دیوبندی)
گرم اس رشتے کے سائے، سرد اس رشتے کی دھوپ
ماں کو آتا ہے پسینہ دیکھ کر بیٹھے کی دھوپ
دھیان رکھنا جل نہ جائیں تیرے گملے کے گلاب
تیرے آنگن میں اُتر آئے اگر پیسے کی دھوپ
(نواز دیوبندی)
کہیں جو پھول محبت کے کِھلنے لگتے ہیں
دلوں کے جلتے ہوئے زخم سلنے لگتے ہیں
سیاست اپنی وہی رخنہ ڈال دیتی ہے
محبتوں سے جہاں لوگ ملنے لگتے ہیں
ہمارے رہنما کیا چلیں گے کانٹوں پر
کہ ان پاؤں تو پھولوں سے چھلنے لگتے ہیں
(منظر بھوپالی)