ستمگروں کی ستم کی اُڑان کچھ کم ہے
ابھی زمیں کے لیئے آسمان کچھ کم ہے
بنا رہا ہے فلک بھی عذاب میرے لئے
تیری زمین پہ کیا امتحان کچھ کم ہے
ہمارے شہر میں سب خیروعافیت ہے مگر
یہی کمی ہے کہ امن و امان کچھ کم ہے
(منظر بھوپالی)
تمام عُمر لڑائی لڑو اصولوں کی
جو جی سکو تو جیو زندگی رسولوں کی
میں قبر تک تو گھسیٹا گیا ہوں کانٹوں پر
میرے مزار پہ چادر چڑھاؤ پھولوں کی
یہ اُن کے پاؤں کے چھالوں سے پیار کرتے ہیں
کہاں سے لاؤ گے تم قسمتیں ببلوں کی
(منظر بھوپالی)
اُس کے ہاتھوں جو لُٹے گا وہ گھرانہ تم ہو
کوئی دشمن نہیں، تیروں کا نشانہ تم ہو
یاد کرلو تمہیں قرآں نے بشارت دی ہے
تم مٹو گے نہیں، تقدیرِ زمانہ تم ہو
(منظر بھوپالی)
دھوپ کو سایہ، زمیں کو آسماں کرتی ہے ماں
ہاتھ رکھ کر میرے سر پر سائباں کرتی ہے ماں
میری خواہش اور میری ضد اس کے قدموں پہ نثار
ہاں کی گنجائش نہ ہوں تو پھر بھی ہاں کرتی ہے ماں
(نواز دیوبندی)
گرم اس رشتے کے سائے، سرد اس رشتے کی دھوپ
ماں کو آتا ہے پسینہ دیکھ کر بیٹھے کی دھوپ
دھیان رکھنا جل نہ جائیں تیرے گملے کے گلاب
تیرے آنگن میں اُتر آئے اگر پیسے کی دھوپ
(نواز دیوبندی)
کہیں جو پھول محبت کے کِھلنے لگتے ہیں
دلوں کے جلتے ہوئے زخم سلنے لگتے ہیں
سیاست اپنی وہی رخنہ ڈال دیتی ہے
محبتوں سے جہاں لوگ ملنے لگتے ہیں
ہمارے رہنما کیا چلیں گے کانٹوں پر
کہ ان پاؤں تو پھولوں سے چھلنے لگتے ہیں
(منظر بھوپالی)
غزل
(منظر بھوپالی)
کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر نہیں معلوم
وہ بدحواسی ہے اپنا ہی گھر نہیں معلوم
ہمارا صبر تجھے خاک میں ملا دے گا
ہمارے صبر کا تجھ کو اثر نہیں معلوم
ہم اپنے گھر میں بھی بےخوف رہ نہیں سکتے
کہ ہم کو نیتِ دیوار و در نہیں معلوم
ہمیشہ ٹوٹ کہ ماں باپ کی کرو خدمت
ہے کتنے روز یہ بوڑھے شجر...