خسارے پر خسارا کررہے ہیں
محبت ہم دوبارہ کررہے ہیں
فراوانی غموں کی ہورہی ہے
زمین دل کشادہ کررہے ہیں
امید صبحِ وصل یار پر ہم
شب فرقت گوارا کررہے ہیں
انہیں طوفاں کا اندازہ ہو کیسے
جو ساحل سے نظارا کررہے ہیں
زمانے بھر سے ہیں ان کے مراسم
ہمیں سے بس کنارہ کررہے ہیں
کہاں باقی رہیں آنکھوں میں آنسو...
دکھلاؤں گا میں حال دل بیقرار کا
پوچھے جو کوئی طولِ شبِ انتظار کا
آجائے وہ تو گردش ایام روک دے
احسان کیوں اٹھائیے لیل و نہار کا
مرجھا گیا ہے دل بھی مرا مثل گل مگر
ہے مطمئن کہ آئے گا موسم بہار کا
جب چاہے ان کی یاد میں ہوجائے مضطرب
یہ اختیار ہے دلِ بے اختیار کا
یہ میں نے کب کہا رخ زیبا...
سر الف عین
پہلے مصرع میں ,جو,کا استعمال کروں گا تو پھر میرے خیال میں اگلے مصرع میں ان کے استعمال کی ضرورت ہے
آپ دیکھیں
جو بہ رہے تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
ترے ان اشکوں کی اے چشم رائگانی تھی
سر الف عین آپکی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کچھ تبدیلیاں کی ہیں
نہ مانتا تھا مری بات اور نہ مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی
یہ بہ رہے تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
یہ تیرے اشکوں کی اے چشم رائگانی تھی
تمام وقت ہی میں شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی
مجھے کیا...
نہ مانتا تھا مری بات اور نہ مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خود کشی کی ٹھانی تھی
یہ بہ رہے تے کسی بے وفا کی فرقت میں
بہ رہے تھے؟
یہاں آپ کیا کہنا چاہ رہے تھے نہیں سمجھ پایا
تمام وقت ہی میں شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کومگر بجھانی تھی
سر الف عین
نہ بات مانتا میری نہ بات مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی
یہ بہ رہیں تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
اے چشم یہ ترے اشکوں کی رائیگانی تھی
میں سارا وقت مرا شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی
وہ لےرہا تھا ابھی مجھسے انتقام مگر
میں جانتا تھا عداوت بڑی پرانی...
سر دیکھیں آپ نے جہاں جہاں نشاندہی کی ہے وہاں تھوڑی تبدیلیاں کی ہیں
یہ حقیقت ہے کہ وہ شخص وفادار نہ تھا
ہاں مگر میں بھی وفا کرنے کو تیار نہ تھا
عرصۂ ہجر بڑا تھا پہ یہ دشوار نہ تھا
دل تو خود ہی مرا آمادۂ دیدار نہ تھا
شہرِ بے حس میں اسیرانِ ہوس تھے( لیکن)
اے محبت ترا کوئی بھی گرفتار نہ تھا...
الف عین
یہ حقیقت ہے کہ وہ شخص وفادار نہ تھا
ہاں مگر میں بھی وفا کرنے کو تیار نہ تھا
عرصۂ ہجر بڑا تھا پہ یہ دشوار نہ تھا
دل تو خود ہی مرا آمادۂ دیدار نہ تھا
شہرِ بے حس میں اسیرانِ ہوس تھے سارے
اے محبت ترا کوئی بھی گرفتار نہ تھا
میرے آنسو، مرا غم اور مری وحشت کے سوا
ہجر کی رات کوئی میرا مددگار...
دورِبہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرےچمن سے بادِ خزاں کا گزر نہ ہو
اگر اس مصرع کو ایسے کردیاجائے تو مناسب رہےگا؟
سینچا ہے اس کو میر نے غالب نے عمربھر
ممکن نہیں زمینِ سخن بارور نہ ہو
حوصلہ افزائ کے لیے شکریہ
دوربہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرے چمن سے دورِخزاں کا گزر نہ ہو
پہلے مصرع کے آخر میں میں نے جائے کا تلفظ, جاے, باندھا ہے, پھر بھی آپ رہنمائی فرمائے.
میں ہوں سیاہئ شبِ ہجراں میں پرسکوں
اے وقت تھم خیال رہے کہ سحر نہ ہو
اگر اس شعر کو ایسا کردیا جائے
میں ہوں...
منزل قریب راہ بھی آساں ہو ڈر نہ ہو
کیا لطف اس سفر میں کہ جو پر خطر نہ ہو
میں بس یہ چاہتا ہوں کہ اسکی نگاہ میں
کوئی بھی شخص میرے سوا معتبر نہ ہو
میں ہوں سیاہئ شبِ ہجراں میں پرسکوں
اے وقت تھم خیال رہے کہ سحر نہ ہو
اک سمت بے وفائی تری اک طرف ہے تو
دل کشمکش میں ہے کہ کدھر ہو کدھر نہ ہو
تیری دعا...
موبائل فون میں ٹائپ کرتے وقت مجھ سے اکثر غلطیاں ہوتی ہیں , مجھے املاء کی غلطیوں کا اندازہ پہلے ہی ہوگیا تھا, اس لیے میں نے املاء کو درست کیا اور نئی لڑی پوسٹ کی, پھر بھی معافی چاہتا ہوں, اور آئندہ خیال رکھوں گا کہ مجھ سے یہ غلطی دوبارہ نہ ہو, شکریہ