کبھی تو گل،کبھی شبنم کبھی نکہت کبھی رنگ
تُو فقط ایک ہے لیکن تجھے کیا کیا سمجھوں
ظلم یہ ہے کہ ہے یکتا تیری بیگانہ روی
لطف یہ ہے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں
دو ہی چیزیں ہیں جنہیں بھول نہ پاؤں گا کبھی
یاد رکھوں گا ہمیشہ تیری دوری،باتیں
ہاں وہ اچھا تھا،مگر اس پہ یقیں کیا کرتے
مجھ سے کیا کرتا تھا ہمیشہ وہ اُدھوری باتیں
چاہت کے بدلے بیچ دیں ہم تو اپنی مرضی تک
کوئی ملے دل کا گاہک،کوئی ہمیں اپنائے تو
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دُہرائے تو