سوادِ زندگانی میں
سوادِ زندگانی میں
اک ایسی شام آتی ہے
کہ جس کے سرمئی آنچل میں
کوئی پھول ہوتا ہے
نہ ہاتھوں میں کوئی تارہ
جو آکر بازوؤں میں تھام لے
پھر بھی
رگ و پے میں کوئی آہٹ نہیں ہوتی
کسی کی یاد آتی ہے
نہ کوئی بھول پاتا ہے
نہ کوئی غم سُلگتا ہے
نہ کوئی زخم سلتا
گلے ملتا ہے کوئی...
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے
مشعلِ خواب کچھ اس بجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سِل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے
اب دھندلکے بھی نہیں زینت ِ چشمِ بے خواب
آس کا روپ...