کبھی تو گل،کبھی شبنم،کبھی نکہت کبھی رنگ
تُو فقط ایک ہے لیکن تجھے کیا کیا سمجھوں
ظلم یہ ہے کہ ہے یکتا تیری بیگانہ روی
لطف یہ ہے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں
نہ قحطِ آب کا ڈر تھا،نہ سیلِ آب کا خوف
زمیں ہی ایسی تھی،بادل یونہی برستے رہے
بس اتنا یاد ہے کہ کچھ لوگ بِک رہے تھے ظفر
خبر نہیں کہ وہ مہنگے تھے یا کہ سستے تھے