کون اس راہ سے گذرتا ہے
دل یونہی انتظار کرتا ہے
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے۔
نہ وعدہ ہے کوئی تم سے
کوئی رشتہ نبھانے کا
نہ کوئی اور تہیّہ یا ارادہ ہے
کئی دن سے مگر دل میں
عجیب الجھن سی رہتی ہے
نہ تم اس داستان کے سرسری کردار ہو کوئی
نہ قصّہ اتنا سادہ ہے
تعلق جو میں نے سمجھا تھا
کہیں اس سے زیادہ ہے۔۔۔