بڑھا کے اس سے راہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں
وہی بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا
ہر ایک کے بس میں کہاں کہ سو رہے سرِ شام
یہ کام بھی تیرے آوارگان ِ شام کا تھا
میری روح میں جو اُتر سکیں وہ محبیتیں مجھے چاہیئں
جو سراب ہوں نہ عذاب ہوں وہ رفاقتیں مجھے چاہیئں
انہی ساعتوں کی تلاش ہے جو کلینڈروں سے اُتر گیئں
جو سمے کے ساتھ گذر گیئں وہی فرصتیں مجھے چاہیئں
اگر رہنا ہے گلشن میں تو اپنے آشیانے کی
کبھی تخریب بھی ہوگی،کبھی تعمیر بھی ہوگی
یہ ہم جانتے ہیں،زندگی اک خواب ہے افسر
مگر اس خواب کی آخر کوئی تعبیر بھی ہوگی