آج کی صبح بڑی خوشگوار تھی، مطلع ابر آلود تھا اور ہلکی ہلکی پھوار دھرتی کے دکھتے سینے پر پھائے رکھ رہی تھی۔ جب میں دفتر جانے کے لئے نکلا تو ایک بہت خوبصورت گیت لبوں پر تھا۔ ہوا میں رقص کرتی بارش کی چھوٹی چھوٹی سی بوندوں میں بلا کا ترنم تھا بالکل ایسے ہی جیسے گیتوں میں نغمگی ہوتی ہے۔ الفاظ...
ناصح
محمداحمدؔ
بات مولوی صاحب کی بھی ٹھیک تھی۔ واقعی کم از کم ایک بار تو سمجھانا چاہیے ایسے لوگوں کو جو دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں یا دوسروں کا مال ناحق کھاتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ مولوی صاحب یہ بات خطبے میں کبھی نہیں کہتے تھے ہاں جب کبھی بیٹھے بیٹھے کسی چوری چکاری کا ذکر آئے تب...
غزل
جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا
بے لوث دوستی کا بڑا ہی مزہ لیا
اک لمحہء سکوں تو ملا تھا نصیب سے
لیکن کسی شریر صدی نے چرا لیا
کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گُل
یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا
اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی
اور اُس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا
اسلم کولسری
غزل
سر کے بل آپ چل کے آتے کیا!
آپ کو ہم ا گر بُلا تے کیا؟
کیا نہ قسمت تھی خاک میں ملنا
یوں ہی پلکوں پہ جھلملاتے کیا !
دولتِ حرف گر نہ ملتی ہمیں
روز تازہ غزل سُنا تے کیا !
جس گلی سے ہوے کنارا کش
اُس گلی میں دوبارا جا تے کیا!
دعوے دار ِ عُروض ہو تے گر
فاعلن، فاعلن نہ گا تے کیا
عُمر گزری،...
پاکستان میں کافی لوگ ایسے ہیں کہ جو نامساعد حالات کی وجہ سے حصولِ علم کے مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں اور معاشی ضروریات کے حصول کے لئے بغیر پڑھے لکھے ہی روزگار سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ ایسےافراد میں بیشتر کو کبھی نہ کبھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کاش وہ بھی تعلیم حاصل کر پاتے۔ تاہم ایسے اکثر لوگ...
غزل
اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں
دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں
اِس طرح پھیر پھیر کہ باتیں نہ کیجیئے
لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں...
منظر سے پس منظر تک (نظم)
کھڑکی پر مہتاب ٹکا تھا
رات سنہری تھی
اور دیوار پہ ساعت گنتی
سَوئی سَوئی گھڑی کی سُوئی
چلتے چلتے سمت گنوا کر غلطاں پیچاں تھی
میں بھی خود سے آنکھ چُرا کر
اپنے حال سے ہاتھ چھڑا کر
برسوں کو فرسنگ بنا کر
جانے کتنی دور چلا تھا
جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا
دھندلے دھندلے چہرے...
غزل
اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا
پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا
وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا
پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں...
غزل
کشتِ اُمّید بارور نہ ہُوئی
لاکھ سورج اُگے سحر نہ ہُوئی
ہم مُسافر تھے دھوپ کے ہم سے
ناز برداریِ شجر نہ ہُوئی
مُجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف
سب نے دیکھا مِری نظر نہ ہُوئی
گھر کی تقسیم کے سِوا اب تک
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہُوئی
نام میرا تو تھا سرِ فہرست
اتفاقاً مجھے خبر نہ ہُوئی
جانے...
غزل
اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا
گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا
شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا
حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا
اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل...
:aadab:
کہتے ہیں کہ شعر کہنے کے بعد شاعر کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے (قاری کی ذمہ داری شروع ہونا البتہ ضروری نہیں ہے :D) ۔ اب قاری اُسے اپنے حالات و واقعات ( بمعہ انتہائی نجی واردات) اور فہم و فراست کے مطابق سمجھتا ہے اور شعر کے معائب و محاسن کے اعتبار سے شاعر کی مدح و ذم کا فریضہ انجام دیتا ہے...