نتائج تلاش

  1. خورشیداحمدخورشید

    غزل (شیشے سا نازک دل لے کے)

    بیٹھو رندوں کی محفل میں یہ رُت مستانی کر دیں گے زاہد بن کے گر الجھو گے یہ پانی پانی کر دیں گے شیشے سا نازک دل لے کے رہتے ہو سنگ دل لوگوں میں تیرے دل کے ٹکڑے کرنے کی یہ نادانی کر دیں گے ان کومل کومل جذبوں کی ہے قیمت بس دل والوں میں دولت کی چاہت کے روگی ان کی قربانی کر دیں گے جو ہمدردی تو کرتے...
  2. خورشیداحمدخورشید

    پھر ایک غزل (محبت)

    ایک محبت کرنے والا اپنی محبت کے بارے میں بتارہا ہے اگر نفرت بھی پائے گی محبت محبت ہی لٹائے گی محبت محبت سے تمہاری جیت پر بھی بڑی خوشیاں منائے گی محبت کسی کے ظلم جب تم بھی سہو گے تمہیں پھر یاد آئے گی محبت خدا رکھے سدا تم کو سلامت دعا کے گیت گائے گی محبت بہت لمبی رفاقت ہے جو ان سے وہ کیسے...
  3. خورشیداحمدخورشید

    غزل (میرے خدا)

    محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی میں چل دیا ہوں جانبِ منزل مگر میرے خدا ہوں میں تہی دامن تُو دے زادِ سفر میرے خدا بھٹکوں اگر رستے سے میں رستہ دکھا مجھ کو بچا تُو ہی ہے میرا ہم سفر تُو راہبر میرے خدا مشکل سفر کی آفتوں کا خوف گر سہمائے تو...
  4. خورشیداحمدخورشید

    غزل (ڈر ہے کہیں لوگوں میں بن جائے نہ افسانہ)

    محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی مطلع کے دوسرے شعر میں ہے نہ ہونے پر معذرت گر شمع ہے روشن تو کیوں دور ہے پروانہ محروم بصارت سے یا ہوش سے بے گانہ سب ہوش خرد والے آگے بڑھے جاتے ہیں ماضی کی تمنا میں اب تک ہے یہ دیوانہ ڈھوندا تجھے مسجد میں...
  5. خورشیداحمدخورشید

    غزل --- (مستی جو شرابوں میں جو رنگ گلابوں میں)

    فقدان وفا کا ہے سنگین شبابوں میں ممکن ہے کہ ملتی ہو یہ خانہ خرابوں میں اقدار ہماری بھی کبھی اعلیٰ و ارفع تھیں اب ذکر ہی ملتا ہے مکتب کے نصابوں میں پہرے ہیں محبت پر نفرت کو ہے آزادی محبوب سے ملنا ہو ملتے ہیں حجابوں میں معلوم ہے دھوکہ ہے ہر عہدِ وفا اُن کا پھر شوق سے رہتا ہوں...
  6. خورشیداحمدخورشید

    نئی غزل (زندگی کے راستے میں پھُول بھی ہیں خار بھی)

    زندگی کے راستے میں پھُول بھی ہیں خار بھی مشکلیں آسانیاں اور نفرتیں بھی پیار بھی دوسروں کی راہ سے کانٹے چُنے گا تُو اگر بے اثر ہوں گے ترے پھر دشمنوں کے وار بھی عید کی خوشیاں منا ایسے کہ تیرے نام سے ویسی ہی خوشیاں منائیں مفلس و نادار بھی قتل پر مائل اگر ہوں اے صنم آنکھیں تری کیا کریں گے پھر وہاں...
  7. خورشیداحمدخورشید

    شاکر شجاع آبادی کی سرائیکی غزل (بمعہ غزل کی صورت میں اردو ترجمہ)

    شاکر شجاع آبادی سرائیکی زبان کے شاعر ہیں- ان کی ایک سرائیکی غزل پیشِ خدمت ہے- اس میں انہوں نے غربت کو موضوع بنایا ہے۔ چونکہ یہ اردو محفل ہے اس لیے میں نے اس غزل کا اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ کلام کو سمجھ سکیں ۔ جو لوگ سرائیکی سمجھتے ہیں وہ اصل غزل کا مزہ لے سکتے ہیں اور باقیوں کو...
  8. خورشیداحمدخورشید

    غزل --- (بھوک بڑھ جاتی ہو جس کی پیٹ بھر جانے کے بعد)

    مل گئی ہے روکھی سوکھی اتنا ترسانے کے بعد حق ملا ہے مجھ کو میرا بھاری نذرانے کے بعد کون سی مخلوق ہے دنیا میں انساں کے بغیر بھوک بڑھ جاتی ہو جس کی پیٹ بھر جانے کے بعد عام لوگوں میں کرے جو آنے والے کل کی بات اس کی ہو پہچان دنیا سے گذر جانے کے بعد چین پانے کے لیے جائے کہاں وہ نامراد اور بھی بے چین...
  9. خورشیداحمدخورشید

    نئی غزل (کیدو ولن ہے یا ہیرو)

    *** اساتذہ کی نذر بہت احترام کے ساتھ *** ترے پیار کا جو طلب گار ہوں مرا جرم ہے میں گنہ گار ہوں جو پہلی ملاقات کا ہے نشہ میں اب تک اسی میں ہی سرشار ہوں محبت میں خواہش ہے سکھ چین کی سزا دو مجھے میں سزاوار ہوں پڑا ہوں ترے در پہ تیرےلیے نہ مجبور ہوں میں نہ لاچارہوں کسی بھی عنایت کے لائق نہیں بڑا...
  10. خورشیداحمدخورشید

    ایک نظم میں منظر نگاری

    مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے جگمگائے ترے موتیوں کی دمک جب میں تھک ہار کے پاس آیا ترے ہار بانہوں کے ڈالے گلے میں مرے اپنے ہاتھوں مرے بال بکھرا دیے گدگدائے تری چوڑیوں کی کھنک مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔ اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم میری مشتاق نظروں سے شرماؤ تم...
  11. خورشیداحمدخورشید

    طفل مکتب کی کاوِش غزل (اساتذہ کرام کی اصلاح اور حوصلہ افزائی کی طلبگار)

    معجزہءِ صبر ہے زندہ ہوں جو اُس کے بغیر برسوں ہوئے دیکھا اُسے بیتے نہ پَل جِس کے بغیر مشقتوں کی کھاد اور دے پانی استقلال کا گلشنِ حیات میں آئے نہ پھَل جس کے بغیر پیار ہے مکینوں میں جو جھونپڑی آباد ہے بادشاہِ وقت کا سُونا محل جس کے بغیر بندگی خدا کی اور خلقِ خدا سے پیار کر رائیگاں سب جائے گا...
  12. خورشیداحمدخورشید

    مودٔبانہ جسارت (اصلاح کی گذارش)

    یارب میرے جذبات کو ایسی زباں ملے حالِ دل وہ جان لے مگر بنا کہے محبتوں کی چاہ ہو دِل کو دِل سے راہ ہو دو جسم ہوں ایک جان میں نہ تُو رہے کانٹا چُبھے مجھے اگر درد ہو اُسے روئے اُس کا دِل وہاں آنسو مراگرے ہو ہمارے مُلک کا ایسا نظامِ زندگی ہر بشر آزاد ہو انصاف بھی ملے بچوں کی...
Top