سائیں
سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
یہ تیری محبت تھی
جو اس پیکر میں ڈھلی
ا ب پیکرسلگے گا
تو ایک دھواں سا اٹھے گا
دھوئیں کا لرزاں بدن
آہستہ سے کہے گا
جو بھی ہوا بہتی ہے
درگاہ سے گذرتی ہے
تیری سانسوں کو چھوتی ہے...
جینے کے لیئے مرنا
جینے کے لیئے مرنا
یہ کیسی سعادت ہے
مرنے کے لیئے جینا
یہ کیسی حماقت ہے
اکیلے جیو
ایک شمشاد تن کی طرح
اور ملکر جیو
ایک بن کی طرح
ہم نے امید کے سہارے
ٹوٹ کر یوں ہی زندگی کی ہے
جس طرح تم نے عاشقی کی ہے
شمشاد (درخت)..........بن(جنگل)
خلش
خرابہ----------
مِرے دل کی دنیا
نہ روشن کوئی امیدِ طاقِ فردا
نہ وا کوئی دروازہءِ دل کُشا
کہ جس سے پرے
چہکتی ہوئی پائلوں کے ترنم کی سنگت میں بولے
مہکتا دھواں
خرابہ----------
مِرے دل کی دنیا
جہاں حسرتیں بھوت بن کر ڈراتی ہیں
ہر تازہ وارد کو---------
ہر آرزو کو
کہ جیسے کوئی پیرِ فرتوت
تاریک شب...
آٹھویں درویش نے پہلے درویش سے کہا........اتنی طول طویل خرافات سُن کر سر میں درد سا ہونے لگا ہے...... پہلے مجھے اونٹ مارکہ بیڑی پلا ،کہ حواس قائم ہوں.......تاکہ پھر اپنی دلدوز داستاں سنا کر تیرے بھی سر میں درد لگا سکوں......پہلے درویش نے دوسرے درویش کی جیب سے بیڑی نکال کے پیش کی.....دو کش لگانے...
سیدنا سلمان بن عامررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسوال اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
’’مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے، جب کہ رشتہ دار پر صدقہ، صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے‘‘
(سنن ترمذی،کتاب الزکاۃ658 )
مضمون طویل ہے........اور مؤلف کی ہر بات سے اتفاق بھی ضروری نہیں....لیکن کیا یہ انتہائی اہم سوال اس قابل نہیں، کہ اہل علم سنجیدگی سے اس کو زیر بحث لائیں اور قابل عمل حل تجویز فرمائیں
مروجہ نظام تعلیم __ایک دعوت فکر
خالد بیگ / عارف الحق عارف
آج کل اُمت مسلمہ کو اگر چہ متعدد بحرانوں کا سامنا...
اِس نگری تِرا جی نہیں لگدا
اِک چڑھدی اِک لہندی اے
تینوں روز اُڈیک خطاں دی
سِکھر دُوپہرے رہندی اے
اِک خط آوے دُھپ دا لکھیا
مہندی رنگے پنے تے
تیرے ویڑھے بُوٹا بن کے
اُگ آواں جے منھے تے
اَک خط آوے ماں جائی دا
بانجھ دیوگن رُتے وی
ویراپت شرینہہ دے بجھ گئے
میرے بُوہے اُتے وی
اَک خط آوے جس وچ ہووے
تیرے...
زیر نظر اقتباسات ڈاکٹر عبدالرحمان کی سیرت پہ مختصر کتاب ، جس کا ترجمہ کرنے کی سعادت فقیر کو حاصل ہوئی سے لیے گئے ہیں۔
تصویری شکل میں پیش کرنے پہ پیشگی اعتذار...........
سرما کی یخ پھینکتی ہوا
اور
گرما کی قہر برساتی لُو
روزِ ازل شاید
اِن دونوں کا انتساب
لڑکیوں کے نام کیا گیا تھا
جنہیں
دونوں میں سے ایک کی
زندگی بھر مہمانی کرنا ہوتی ہے
ویہن سمے دا
کتھےنیں اوہ بیری دے رُکھ
جس دی ٹھنڈڑی چھانواں ہیٹھاں
بھل جاندی سی ماں
شاماں تیکر لیندے نہیں ساں
گھر جاون دا ناں
کتھے نیں اوہ مٹھڑے کھوہ تے
جوتے لگی جوڑی
کتھے نیں اوہ اُچے شملے
کھوہ تے بجھی گھوڑی
کتھے نیں اوہ سجن بیلی
تے مٹیاراں سیاں
ہنے ہنے سن گیٹے چھڈے
ہنے اوہ کدھر...
رات آؤندی اے
نگھی جھولی دا روپ لے کے
ونہے ہوئے جثے ٹکورن لئی
کلبوتاں نوںسمے دی بٹھ ولے
نویں سروں ٹورن لئی
رات آؤندی اے
خواباں دی بہار
سوچاں دے پہاڑ لے کے
پر اکھاں وچ سفنیاں دی تھاں
کنڈے بیج دی
سرہانے بھیو ندی ہوئی
رات آؤندی اے
تے کدی کدی اُکاجاندی ہی نہیں
لوکی پکھوواں دیاں واجاں...
وہ بھی کیا دن تھے کہ لوگوں سے جدا رہتے تھے ہم
شام ہوتے ہی الگ دنیا میں جا رہتے تھے ہم
دھوپ سہتے تھے مگن رہتے تھے اپنی موج میں
دوسروں کے سائے سے بچ کر ذرا رہتے تھے ہم
زخم تازہ تھا، نگر بھی بے سبب آباد تھا
ایک تجھ کو چھوڑ کر سب سے خفا رہتے تھے ہم
اُس گلی تک چھوڑ آتے تھے ہر اک رہ گیر کو
جی ہی...