نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    غزل : دھب ہے ، کہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے - اختر عثمان

    غزل دھب ہے ، کہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے بیٹھے رہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے یوں ہو تو ہر کسبی انت سہاگن ٹھہرے گجرے ، گہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے کچھ کچھ بات کرو ، جی بہلے ، سکتہ ٹوٹے چپ چپ سہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے جینا ہے تو جی کی جولا جل میں پھینکو بھتیرے بہنے سے یہ سب تھوڑی ہوتا ہے...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : اک ہنر دیدۂ خوش آب میں رکھا ہم نے - اختر عثمان

    غزل اک ہنر دیدۂ خوش آب میں رکھا ہم نے آنسوؤں کو حدِ آداب میں رکھا ہم نے پھر لہو میں ہے کوئی ذائقۂ بت شکنی اتنے دن تک تجھے محراب میں رکھا ہم نے تڑ تڑانے لگا بپھرے ہوئے تاروں کا جلوس پاؤں کیا خیمۂ مہتاب میں رکھا ہم نے یار سمجھے کہ وہی بے سر و سامانی ہے اک ترا دھیان ہی اسباب میں رکھا ہم...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : سایہ کوئی ، گمان کوئی ، کوئی چھب تو ہو - اختر عثمان

    غزل سایہ کوئی ، گمان کوئی ، کوئی چھب تو ہو میں اُس کو مانتا ہوں مگر ایک رب تو ہو مصرعوں سے جھانکتی ہوئی خوابوں کی تُند موج سہنے کی بات اور ہے کہنے کا ڈھب تو ہو تم خون میں نہیں تھے تو خاموش تھا یہ دل کوئی صدا تمہاری طرف سے کہ اب تو ہو اٹھ بھی چکو کے نصرتِ شبیر کے لیے اب کس کا انتطار ہے تم...
  4. فرحان محمد خان

    غزل : کہاں یہ خون میں لَت پَت کمان سُوکھتی ہے - اختر عثمان

    غزل کہاں یہ خون میں لَت پَت کمان سُوکھتی ہے جو دیکھتے ہی پرندوں کی جان سُوکھتی ہے مجھ ایسا شخص اگر تشنگیِ اہلِ وفا رقم کرے تو قلم کی زبان سُوکھتی ہے تری نگہ کی نمی مجھ تک آئے بھی کیسے ! ہَوا کی سانس کہیں درمیان سُوکھتی ہے چمک دمک ہے ، مہک ہے مری ذرا کی ذرا لہو کی لہر ہے ، سو کوئی آن...
  5. فرحان محمد خان

    غزل : جدائیوں کا اگر جی سے ڈر چلا جاتا - اختر عثمان

    غزل جدائیوں کا اگر جی سے ڈر چلا جاتا میں اُس کے ساتھ یونہی عمر بھر چلا جاتا شکن شکن جو مری روح میں بچھا ہے یہ درد خدا نکردہ اِدھر سے اُدھر چلا جاتا یہ زرد زرد ہیولے ، یہ مسخ مسخ نقوش کہاں سنورتے جو آئینہ گر چلا جاتا ملا جو ہوتا وہ گلگشت خواب کے دوران روش روش زرِ گل کا ہنر چلا جاتا سفال...
  6. فرحان محمد خان

    غزل:کوئی دیوار ہماری تھی نہ چھت اپنی تھی -اختر عثمان

    غزل کوئی دیوار ہماری تھی نہ چھت اپنی تھی اپنے سائے میں جیے ہم یہ سکت اپنی تھی تہ بہ تہ ہم نے قرینوں سے کیے تیرے سخن مستعاری نہ تھے ، ایک ایک جہت اپنی تھی اپنی آہستہ روی ہے کوئی واماندگی نئیں لہر اپنی تھی بَن اپنا تھا ، چلت اپنی تھی اب جو دیکھیں تو گلہ تک نہیں بنتا کہ دلا! فیصلے سارے...
  7. فرحان محمد خان

    غزل :جنوں شعار ہوں اُفتادگی تو ہے مجھ میں -اختر عثمان

    غزل جنوں شعار ہوں اُفتادگی تو ہے مجھ میں شروعِ عمر سے شہزادگی تو ہے مجھ میں اسیر ہو کے بھی وابستۂ تلوّن ہوں ہنر کہ عیب ہے آزادگی تو ہے مجھ میں تمہیں خوش آئے نہ آئے مرا نبھاؤ سبھاؤ کسی سبب سہی سجّادگی تو ہے مجھ میں چمن میں سرو کی صورت لہکتا پھرتا ہوں مگر بہ ایں ہمہ اِستادگی تو ہے مجھ...
  8. فرحان محمد خان

    رباعیات : کشمیر - فرحان محمد خان

    رباعیات دکھ درد و آلام کا مارا کشمیر جلتی ہوئی جنت کا نظارہ کشمیر لوٹا گیا جس کو ہر اک دور میں ہائے ہے کربلِ ثانی بیچارا کشمیر ------------ دیتا ہے آج کل صدائیں کشمیر گھیرے ہوئے ہیں کالی بلائیں کشمیر شہ رگ کوئی کہتا ہے اٹوٹ انگ کوئی اللہ کرے دونوں چھوڑ جائیں کشمیر ------------ فردوسِ زمیں...
  9. فرحان محمد خان

    مجاز نظم : نیا کشمیر - اسرار الحق مجاز

    نیا کشمیر اک شرارہ جھلملایا اور فضا میں کھو گیا اک شرارہ جانبِ خلدِ جواں آیا تو کیا کوئی طوفان آئے اک کوہِ گراں ہے اس طرف کوئی طوفاں برسرِ کوہِ گراں آیا تو کیا دست و بازو میں صَلابت آچکی فولاد کی اب مقابل اک حریفِ نیم جاں آیا تو کیا خود حقیقت پر پڑے باطل کا سایہ تابکے مہرِ عالم تاب کے آگے...
  10. فرحان محمد خان

    جگر غزل : مذہبِ عشق کر قبول ، مسلکِ عاشقی نہ دیکھ - جگر مراد آبادی

    غزل مذہبِ عشق کر قبول ، مسلکِ عاشقی نہ دیکھ محشرِ التجا تو بن صورتِ ملتجی نہ دیکھ دل کو مٹا کے عشق میں دل کی طرف کبھی نہ دیکھ ہو کے نثارِ زندگی حاصلِ زندگی نہ دیکھ جان کو جب گُھلا چکا جان کی فکر ہی نہ کر شمع کو جب بجھا چکا ، شمع کی روشنی نہ دیکھ ناصحِ کم نگاہ سے کون یہ کہہ کے سر کھپائے...
  11. فرحان محمد خان

    نظم : Globe - اختر عثمان

    کشمیر پر اختر عثمان کی ایک پرسوز اور ولولہ انگیز نظم ۔ Globe وہی خواب خواب سے لوگ ہیں وہی نیند نیند سی رات ہے وہی تیرگی ہے چہار سُو وہی رنجِ قیدِ حیات ہے کسی راستے کا نشاں نہیں جو سراغِ منزل و گام ہو کسی روشنی کا گماں نہیں جو یقینِ اہلِ خرام ہو وہی مشعلیں ہیں بُجھی بُجھی وہی سوختہ سے...
  12. فرحان محمد خان

    سلیم احمد غزل : یوں نہ سیکھا تھا گریز اہلِ سفر نے پہلے - سلیم احمد

    غزل یوں نہ سیکھا تھا گریز اہلِ سفر نے پہلے قافلے آتے تھے منزل پہ ٹھہرنے پہلے میرے اندر جو خموشی تھی وہ باہر گونجی دلِ ویراں کی خبر دی مجھے گھر نے پہلے کھیل طفلی میں کٹی اور تھے لیکن مجھ کو اپنا دیوانہ کیا رقصِ شرر نے پہلے بڑھ گئی بات تو دل کو مرے الزام نہ دے سخن آغاز کیا تیری نظر نے پہلے...
  13. فرحان محمد خان

    غزل : سنگ ریزہ کبھی الماس نہیں بھی ہوتا -اختر عثمان

    غزل سنگ ریزہ کبھی الماس نہیں بھی ہوتا بعض اوقات یہ احساس نہیں بھی ہوتا دلِ کج فہم ہے حسّاس نہیں بھی ہوتا آدمی وقفِ غم و یاس نہیں بھی ہوتا کتنی باتیں ہیں جو لکھنا ہی نہیں چاہتا میں حرفِ گفتہ سرِ قرطاس نہیں بھی ہوتا بہتا رہتا ہے مرے خون میں اک نقشِ جمیل لمحۂ وصل مرے پاس نہیں بھی ہوتا...
  14. فرحان محمد خان

    غزل : اشکوں میں بپا شورشِ غم ہے بھی نہیں بھی - سحرؔ انصاری

    غزل اشکوں میں بپا شورشِ غم ہے بھی نہیں بھی اب دل تہہِ گردابِ الم ہے بھی نہیں بھی بے ربطیِ احساسِ کرم ہے بھی نہیں بھی اب ان کی محبت کا بھرم ہے بھی نہیں بھی وہ ترکِ محبت پہ کئی دن سے مُصر تھے اب ان سے بچھڑنے کا الم ہے بھی نہیں بھی آتے ہیں تو پلکوں پہ ٹھہرتے نہیں آنسو اب دامنِ مژگاں مرا...
  15. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : شبِ فراق میں چہرہ نُما گزرتی ہے - نصیر ترابی

    غزل شبِ فراق میں چہرہ نُما گزرتی ہے کبھی چراغ بکف بھی ہوا گزرتی ہے دلوں کی راہ میں دریا بھی آئے تھے کیا کیا اب اس سفر میں زمیں زیرِ پا گزرتی ہے وہ رات گھر میں پریشان و سر گراں گزری جو رات شہر میں نغمہ سَرا گزرتی ہے تمام رات فضا میں وہی ہے گریۂ میرؔ کسے خبر پسِ دیوار کیا گزرتی ہے نہ آئی...
  16. فرحان محمد خان

    خورشید رضوی نظم : سالگرہ - خورشید رضوی

    سالگرہ جیسے اک سانپ ہے ڈستا ہے مجھے سال بہ سال جب پلٹ کر وہی موسم وہی دن آتا ہے پھولنے لگتا ہے مجھ میں وہی مسموم خمیر اُس کا بوسہ مری پوروں میں مہک اٹھتا ہے اور وہ اپنی ہی خوشبو کی کشش سے بے چین میں کہیں بھی ہوں مرے پاس چلا آتا ہے در و دیوار اُسے راستہ دے دیتے ہیں اور میں اُس کی طرف ہاتھ...
  17. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی غزل : جویانِ تازہ کاریِ گفتار کچھ کہو - عزیز حامد مدنی

    غزل جویانِ تازہ کاریِ گفتار کچھ کہو تم بھی ہوئے ہو کاشفِ اَسرار کچھ کہو شیشہ کہیں سے لاؤ شرابِ فرنگ کا باقی جو تھی حکایتِ دل دار کچھ کہو جانے بھی دو تغیرِ عالم کی داستاں کس حال میں ہے نرگسِ بیمار کچھ کہو بادل اٹھے ہیں چشمکِ برق و شرار ہے منہ دیکھتے ہو صورتِ دیوار کچھ کہو مطرب کو تازہ...
  18. فرحان محمد خان

    غزل : حسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی - اختر عثمان

    غزل حسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی ایک جھلمل سی کہیں جی میں رواں ہوتی تھی مجتمع کیسے ہوا کرتے تھے نور اور وفور اور جب ساتھ کی مسجد میں اذاں ہوتی تھی لب و رخسار کی تعظیم بجا لانے کو روز مرّہ ہوا کرتا تھا زباں ہوتی تھی آج شہرت ہے ترے پاس تو اِترا نہیں دوست اک زمانے میں یہ کسبی مرے ہاں...
  19. فرحان محمد خان

    مجذوب غزل : عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے - خواجہ عزیز الحسن مجذوب

    غزل عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے وہ کیا جانے کہ زخمِ دل کہاں تک تھا کہاں تک ہے مرا خاموش ہو جانا دلیلِ مرگ ہے گویا مثالِ نَے مرا جینا فغاں تک تھا فغاں تک ہے نہ دھوکہ دے مجھے ہمدم وہ آیا ہے نہ آئے گا پیامِ وعدۂ وصلت زباں تک تھا زہاں تک ہے کٹی روتے ہی اب تک عمر آگے دیکھئے...
  20. فرحان محمد خان

    غزل : کنایہ کار کوئی چشم ِ نیلگوں ہے کہ یوں ۤ۔ اختر عثمان

    غزل کنایہ کار کوئی چشمِ نیلگوں ہے کہ یوں ہمیں شعور کہاں تھا، حیات یوں ہے، کہ یوں جو گِرد باد تھے اب ہیں وہ خاک اُفتاده ہوائے دشت صدا زن ہے، یوں سکوں ہے، کہ یوں خِرد شعار زمانے کا طرز اپنی جگہ ہمیں کچھ اور غرض ہے، ہمیں جنوں ہے کہ یوں لہو میں یوں تو لہکتی نہیں ہے کیا کیا لہر مگر جو ایک...
Top