نتائج تلاش

  1. اسامہ جمشید

    ایك غزل

    شاكر اللہ قاسمی كی یاد میں ......ایك تازہ غزل ....... بڑے گلے تھے ہم نوا جو رو كے سب سنا دئیے یہ حسرتوں كے حرف تھے جو شعر بن كے گا دئیے ضرورتوں كے جھوٹ میں ہی بے بسی كا راز تھا عیاں عیاں سے مسئلے تھے ہم نے كیوں چھپا دئیے جو دشت تھا تو ہم تھے واں تو تیغ تھی تو تیر تھے جو شہر تھا تو ناز جاں علم...
  2. اسامہ جمشید

    ............پنچھی ...........

    تازہ نظم ------------- أسامة جمشید ............پنچھی ........... شاموں كا اور صبحوں كا صدیوں كا اور میلوں كا درد كے پہلے رشتوں كا آس كے رم چھم حصوں كا بارش كے سب قطروں كا شبنم كا اور بھولوں كا قوس وقزح كے رونگوں كا پنچھی تیری آنكھوں میں پیار بھرا ہے جھیلوں كا سچی رت متوالوں سی كویل...
  3. اسامہ جمشید

    ہزار الفت كى چاه كى پر

    ہزار الفت كى چاه كى پر بڑا تعصب خمیرميں تھا بڑے چھپائے تھے عيب ہم نے وه ره گيا جو ضمير ميں تھا جگہ جگہ پر لہو پڑا ہے یہ سرخ كينہ مشير ميں تھا كسو كو يادوں سے مل گيا ہے ذرا سا نقطہ لكير ميں تھا خزاں ہےہم سے، بہارہم ہیں بہت سا غصہ اسير ميں تھا نگاه نم اور لبوں پہ بلبل وه دل، وه جگرا تو...
  4. اسامہ جمشید

    الفاظ بھى زنده هيں جذبات بھى زنده هيں

    بروز جمعرات مؤرخه 5 فرورى 2015 كو مظفر آباد، آزاد كشمير ميں لكھى گئى غزل الفاظ بھى زنده هيں جذبات بھى زنده هيں احساس محبت كے دن رات بھى زنده هيں كل رات چراغاں تھى جگنو سى سجى وادى آغوش ميں پربت كى ظلمات بھى زنده هيں دريا كے پهاڑوں ميں تسبيح پرندوں كى هر شخص ميں جيون هے سادات بھى زنده هيں...
  5. اسامہ جمشید

    كرے مغفرت حق مرے كفر كى

    تازه كلام.... نه گل هم جو تجھ سى نزاكت كريں نه بو هيں كے تجمھ ميں سرايت كريں فقيروں كو اتني بھي لالچ نه دو كے گھبرا كے خود سے شكايت كريں تماشا عجب هو اگر حسن كو وه اپنى زباں سے حكايت كريں كريں آخرش هيں جو نفرت كى هم محبت ميں بھى هم نهايت كريں تجھے ديكھ كر هم نمازيں پڑھيں اكيلے پڑھيں اور...
  6. اسامہ جمشید

    اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا

    بروز اتوار 7 سپٹمبر 2014 كو لكھي گئي ايك نظم (اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا) ہم دور كسي اك وادي ميں لا وارث سے كچے گھر ميں تنها رات كو سوچ رهے تھے ہم جيسے خود كو بھول گئے اس رات بڑي بے چيني تھي كچھ مٹي كي بو نے ستايا اور آگ لگا دي قطروں نے اس گرتے گرتے پاني كے ہم دل كے پھوڑے پھوڑ گئے اس رات ميں...
  7. اسامہ جمشید

    دل تو كل بھي رويا تھا

    شاكر الله قاسمي كے نام دل تو كل بھي رويا تھا دل تو پھر بھي تڑپے گا جب بھي تجھ كو ديكھوں گا مسكرا كے ديكھوں گا آگ لگ رهي هے جو درد جل گيا هوگا ميں يقين كيوں كر لوں پاس جا كے ديكھوں گا اس طرف سويرا هے اور هجوم لوگوں كا روشني سے ڈرتا هوں پر ميں جا كے ديكھوں گا مر گئے فلسطيني رو رهي هيں...
  8. اسامہ جمشید

    ايك مسجد ايك صف اور پھر بھي نفرت

    بے وفائى تھا تقاضا جس وفا كا اس وفا سے بے وفائى كر رهے هيں ايك مسجد ايك صف اور پھر بھي نفرت كس خدا كى هم گدائى كر رهے هيں هم منافق لا ابالى بے مروّت خود پرستى كي كمائى كر رهے هيں پوچھتے هيں رهزنى جو دوسروں سے وه همارى رهنمائى كر رهے هيں تھام كر اب لال پرچم بزدلي كا هم كرائے كي لڑائى كر رهے...
  9. اسامہ جمشید

    دشت سے صحرا سے كهيں دور ميں بيٹھا تها هوا

    منه كيسے كيسوں كو لگايا تيري خاطر اور كيسے كيسوں كو تيري بات سنا ئي دنيا ميري دنيا سے كهيں دور چلي جا اس خود غرض سے دلدل ميں كبھي نيند نه آئي پھر لوگ ملے لوگ بھي كيا خوب تھے وه لوگ جب غور سے ديكھا انهيں خوب هنسي آئي دل چاها كه كاٹ كے پھينكوں دريا ميں بها دوں زخموں نے ميرے گھر پر هي كيوں گھات...
  10. اسامہ جمشید

    جام هيں آج بھي ايك جم نا رهے

    ايك حد تك تھا چاها انهيں اور پھر چاهتيں ره گئي اور هم نا رهے يا زمانے كي هم كو نظر لگ گئي يا ديوانوں كے حصے ميں غم نا رهے انكي زلفيں بھي سيدھي هوئي اور كچھ ان خيالوں ميں بھي تيز خم نا رهے دل دھڑكنے كي جلدي ميں مارا گيا ايسي تڑپي هيں سانسيں كه دم نا رهے ناصح وزاهد شيخ صاحب ورند جام...
  11. اسامہ جمشید

    هم اپني شب كو كسي كے دن ميں شمار كرديں هماري مرضي

    حسين چهره سليس لهجے ميں بات كركے دكھا رها هے همارا دل هي هماري جاں كو كيوں آج اتنا ستا رها هے كسي كي بوتل ميں جام چھلكا كسي كے سينے ميں جان چھلكي وه رقص كرتا حسين چهره دكھا دكھا رها هے چھپا رها هے هم اپني شب كو كسي كے دن ميں شمار كرديں هماري مرضي هماراآنسو كسي حسين كا حسين چهره سجا رها هے...
  12. اسامہ جمشید

    راحت

    راحت کہیں جو روئے تو خوب روئے کبھی ہنسے تو ہنسا کے سوئے زمان راحت مکان راحت تجھے نہ پانے کا وہم راحت ذرا سا چھونے کا زعم راحت یقین راحت گمان راحت ہموم سارے غروب کردے جگر کو دل سے جو دور کردے وہ تیر راحت کمان راحت سرور ، مستی وجام راحت غنی کے لونڈے امام راحت فقیر سینے میں جان راحت...
  13. اسامہ جمشید

    مسافر جا چکا کب کا مسافر یاد آتا ہے

    مسافر جا چکا کب کا مسافر یاد آتا ہے یہاں بھی مست رہتا تھا وہاں بھی سو رہا ہوگا بہت خاموش تھا ابتک مغنی کچھ نہ بولا تھا ذرا سی بات کردی ہے تماشا ہو رہا ہوگا کسی عاشق کا صدقہ ہے قیامت جو نہیں آتی کہیں پر منہ چھپا کر وہ ابھی تک رو رہا ہوگا وہ آنکھیں ہوں یا زلفیں ہوں یا ہو گر دل ملنگوں کا...
  14. اسامہ جمشید

    جا چکی جبکہ میری بینائی

    جا چکی جبکہ میری بینائی اشک کیوں سوگوار بہتے ہیں ایک نفرت سی ہوگئی ہمکو دل کے خانے خراب رہتے ہیں مرنے والوں کو کچھ نہیں ہوتا جینے والے عذاب سہتے ہیں خوش رہو ہمکو بیچنے والو رات دن تو بدلتے رہتے ہیں جو جگر رکھتے ہوں تڑپتا سا بات وہ صاف صاف کہتے ہیں (أسامۃ جمشید)
  15. اسامہ جمشید

    تری گلی میں رات کو

    کبھی سبھی سے ہو کے تنگ آوارگی کی ٹھان کر بدل کے بھیس کفر کا شراب پی کے میں پھروں تری گلی میں رات کو چراغ سب بجھے رہیں کسی کو کچھ خبر نہ ہو نہ مجھ کو کچھ پتہ چلے میں چوٹ کھا کے گر پروں تری گلی میں رات کو سکوں کی اک گھڑی ملے ذراسی کچھ ہوا چلے ہوا میں ایک ساز ہو میں ساز سن کو روپڑوں...
  16. اسامہ جمشید

    بتا بتا کر ستا رہے ہو

    بتا بتا کر ستا رہے ہو سنو تمہارا حسا ب ہوگا جہاں دکھوں کی دوا ملے گی وہاں پہ جینا عذاب ہوگا منافقت کے اصول پر تم چلے تو تم کو ثواب ہوگا خیال میں بھی حقیقتں ہیں حقیقتوں میں بھی خواب ہوگا تو شاعروں کو سمجھ سکے گا جو حال تیرا خراب ہوگا ہم اپنی ضد پر جمے رہیں گے کبھی تو الٹا نقاب ہوگا یہ...
  17. اسامہ جمشید

    کہیں مسجد نہیں بنتی کہیں مینار بنتے ہیں

    کہیں مسجد نہیں بنتی کہیں مینار بنتے ہیں کبھی خود زخم کھاتے ہیں کبھی تلوار بنتے ہیں ہماری بے بسی دیکھو ہمارا بس نہیں چلتا اگر مرنے کی باتیں ہوں سبھی بیمار بنتے ہیں جنہیں اِک آہ تڑپائے جنہیں غیرت نہ سونے دے وہی کشتی جلاتے ہیں وہی سالار بنتے ہیں یہاں انصاف بکتا ہے یہا ں سب ظلم کرتے ہیں خدائی...
  18. اسامہ جمشید

    کبھی کچھ بھول جاتا ہوں کبھی کچھ یاد کرتا ہوں

    کبھی کچھ بھول جاتا ہوں کبھی کچھ یاد کرتا ہوں مجھے بے چین رکھتی ہیں تری دلدار سی آنکھیں سمجھ میں وہ تو آتا ہے سمجھ پر میں نہیں پاتا بہت آسان چہرے پر بہت دشوار سی آنکھیں مجھے لگتا تھا بدلو گے مگر بدلے نہیں ہو تم وہی سنگین سا لہجہ وہی ہُشیار سی آنکھیں اندھیرا بڑھ چلا ہے کیوں دکھائی کچھ نہیں...
  19. اسامہ جمشید

    غم سنا کہ اٹھتے ہیں

    غم سنا کہ اٹھتے ہیں رو رولا کہ اٹھتے ہیں آج اپنے ہاتھوں سے مے پلا کہ اٹھتے ہیں لوگ اپنے رازوں کو کیوں بتاکہ اٹھتے ہیں اہل زر کی عادت ہے لُٹ لٹاکہ اٹھتے ہیں اٹھ کہ دیکھ لو تم بھی ہم جگا کہ اٹھتے ہیں خوں بہا کہ بیٹھے تھے خوں بہا کہ اٹھتے ہیں راجپوت جنگوں میں سر کٹا کہ اٹھتے ہیں موت...
  20. اسامہ جمشید

    منزل

    منزليں چھوڑكر هم چلے هيں كهيں تم بھي آؤكه ديكھيں كسي كا سفر
Top