شاكر اللہ قاسمی كی یاد میں ......ایك تازہ غزل .......
بڑے گلے تھے ہم نوا جو رو كے سب سنا دئیے
یہ حسرتوں كے حرف تھے جو شعر بن كے گا دئیے
ضرورتوں كے جھوٹ میں ہی بے بسی كا راز تھا
عیاں عیاں سے مسئلے تھے ہم نے كیوں چھپا دئیے
جو دشت تھا تو ہم تھے واں تو تیغ تھی تو تیر تھے
جو شہر تھا تو ناز جاں علم...
ہزار الفت كى چاه كى پر
بڑا تعصب خمیرميں تھا
بڑے چھپائے تھے عيب ہم نے
وه ره گيا جو ضمير ميں تھا
جگہ جگہ پر لہو پڑا ہے
یہ سرخ كينہ مشير ميں تھا
كسو كو يادوں سے مل گيا ہے
ذرا سا نقطہ لكير ميں تھا
خزاں ہےہم سے، بہارہم ہیں
بہت سا غصہ اسير ميں تھا
نگاه نم اور لبوں پہ بلبل
وه دل، وه جگرا تو...
اعجاز عبید
الف عین
جناب تلمیذ
جناب سید عاطف علی
جناب محمد وارث
جناب محمد یعقوب آسی
جناب محمود احمد غزنوی
جناب مزمل شیخ بسمل
جناب مہدی نقوی حجاز
جناب نایاب
تازه كلام....
نه گل هم جو تجھ سى نزاكت كريں
نه بو هيں كے تجمھ ميں سرايت كريں
فقيروں كو اتني بھي لالچ نه دو
كے گھبرا كے خود سے شكايت كريں
تماشا عجب هو اگر حسن كو
وه اپنى زباں سے حكايت كريں
كريں آخرش هيں جو نفرت كى هم
محبت ميں بھى هم نهايت كريں
تجھے ديكھ كر هم نمازيں پڑھيں
اكيلے پڑھيں اور...
بروز اتوار 7 سپٹمبر 2014 كو لكھي گئي ايك نظم
(اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا)
ہم دور كسي اك وادي ميں
لا وارث سے كچے گھر ميں
تنها رات كو سوچ رهے تھے
ہم جيسے خود كو بھول گئے
اس رات بڑي بے چيني تھي
كچھ مٹي كي بو نے ستايا
اور آگ لگا دي قطروں نے
اس گرتے گرتے پاني كے
ہم دل كے پھوڑے پھوڑ گئے
اس رات ميں...
شاكر الله قاسمي كے نام
دل تو كل بھي رويا تھا
دل تو پھر بھي تڑپے گا
جب بھي تجھ كو ديكھوں گا
مسكرا كے ديكھوں گا
آگ لگ رهي هے جو
درد جل گيا هوگا
ميں يقين كيوں كر لوں
پاس جا كے ديكھوں گا
اس طرف سويرا هے
اور هجوم لوگوں كا
روشني سے ڈرتا هوں
پر ميں جا كے ديكھوں گا
مر گئے فلسطيني
رو رهي هيں...
بے وفائى تھا تقاضا جس وفا كا
اس وفا سے بے وفائى كر رهے هيں
ايك مسجد ايك صف اور پھر بھي نفرت
كس خدا كى هم گدائى كر رهے هيں
هم منافق لا ابالى بے مروّت
خود پرستى كي كمائى كر رهے هيں
پوچھتے هيں رهزنى جو دوسروں سے
وه همارى رهنمائى كر رهے هيں
تھام كر اب لال پرچم بزدلي كا
هم كرائے كي لڑائى كر رهے...
منه كيسے كيسوں كو لگايا تيري خاطر
اور كيسے كيسوں كو تيري بات سنا ئي
دنيا ميري دنيا سے كهيں دور چلي جا
اس خود غرض سے دلدل ميں كبھي نيند نه آئي
پھر لوگ ملے لوگ بھي كيا خوب تھے وه لوگ
جب غور سے ديكھا انهيں خوب هنسي آئي
دل چاها كه كاٹ كے پھينكوں دريا ميں بها دوں
زخموں نے ميرے گھر پر هي كيوں گھات...
ايك حد تك تھا چاها انهيں اور پھر
چاهتيں ره گئي اور هم نا رهے
يا زمانے كي هم كو نظر لگ گئي
يا ديوانوں كے حصے ميں غم نا رهے
انكي زلفيں بھي سيدھي هوئي اور كچھ
ان خيالوں ميں بھي تيز خم نا رهے
دل دھڑكنے كي جلدي ميں مارا گيا
ايسي تڑپي هيں سانسيں كه دم نا رهے
ناصح وزاهد شيخ صاحب ورند
جام...
راحت
کہیں جو روئے تو خوب روئے
کبھی ہنسے تو ہنسا کے سوئے
زمان راحت مکان راحت
تجھے نہ پانے کا وہم راحت
ذرا سا چھونے کا زعم راحت
یقین راحت گمان راحت
ہموم سارے غروب کردے
جگر کو دل سے جو دور کردے
وہ تیر راحت کمان راحت
سرور ، مستی وجام راحت
غنی کے لونڈے امام راحت
فقیر سینے میں جان راحت...
مسافر جا چکا کب کا مسافر یاد آتا ہے
یہاں بھی مست رہتا تھا وہاں بھی سو رہا ہوگا
بہت خاموش تھا ابتک مغنی کچھ نہ بولا تھا
ذرا سی بات کردی ہے تماشا ہو رہا ہوگا
کسی عاشق کا صدقہ ہے قیامت جو نہیں آتی
کہیں پر منہ چھپا کر وہ ابھی تک رو رہا ہوگا
وہ آنکھیں ہوں یا زلفیں ہوں یا ہو گر دل ملنگوں کا...
جا چکی جبکہ میری بینائی
اشک کیوں سوگوار بہتے ہیں
ایک نفرت سی ہوگئی ہمکو
دل کے خانے خراب رہتے ہیں
مرنے والوں کو کچھ نہیں ہوتا
جینے والے عذاب سہتے ہیں
خوش رہو ہمکو بیچنے والو
رات دن تو بدلتے رہتے ہیں
جو جگر رکھتے ہوں تڑپتا سا
بات وہ صاف صاف کہتے ہیں
(أسامۃ جمشید)
کبھی سبھی سے ہو کے تنگ
آوارگی کی ٹھان کر
بدل کے بھیس کفر کا
شراب پی کے میں پھروں
تری گلی میں رات کو
چراغ سب بجھے رہیں
کسی کو کچھ خبر نہ ہو
نہ مجھ کو کچھ پتہ چلے
میں چوٹ کھا کے گر پروں
تری گلی میں رات کو
سکوں کی اک گھڑی ملے
ذراسی کچھ ہوا چلے
ہوا میں ایک ساز ہو
میں ساز سن کو روپڑوں...
بتا بتا کر ستا رہے ہو
سنو تمہارا حسا ب ہوگا
جہاں دکھوں کی دوا ملے گی
وہاں پہ جینا عذاب ہوگا
منافقت کے اصول پر تم
چلے تو تم کو ثواب ہوگا
خیال میں بھی حقیقتں ہیں
حقیقتوں میں بھی خواب ہوگا
تو شاعروں کو سمجھ سکے گا
جو حال تیرا خراب ہوگا
ہم اپنی ضد پر جمے رہیں گے
کبھی تو الٹا نقاب ہوگا
یہ...
کہیں مسجد نہیں بنتی کہیں مینار بنتے ہیں
کبھی خود زخم کھاتے ہیں کبھی تلوار بنتے ہیں
ہماری بے بسی دیکھو ہمارا بس نہیں چلتا
اگر مرنے کی باتیں ہوں سبھی بیمار بنتے ہیں
جنہیں اِک آہ تڑپائے جنہیں غیرت نہ سونے دے
وہی کشتی جلاتے ہیں وہی سالار بنتے ہیں
یہاں انصاف بکتا ہے یہا ں سب ظلم کرتے ہیں
خدائی...
کبھی کچھ بھول جاتا ہوں کبھی کچھ یاد کرتا ہوں
مجھے بے چین رکھتی ہیں تری دلدار سی آنکھیں
سمجھ میں وہ تو آتا ہے سمجھ پر میں نہیں پاتا
بہت آسان چہرے پر بہت دشوار سی آنکھیں
مجھے لگتا تھا بدلو گے مگر بدلے نہیں ہو تم
وہی سنگین سا لہجہ وہی ہُشیار سی آنکھیں
اندھیرا بڑھ چلا ہے کیوں دکھائی کچھ نہیں...
غم سنا کہ اٹھتے ہیں
رو رولا کہ اٹھتے ہیں
آج اپنے ہاتھوں سے
مے پلا کہ اٹھتے ہیں
لوگ اپنے رازوں کو
کیوں بتاکہ اٹھتے ہیں
اہل زر کی عادت ہے
لُٹ لٹاکہ اٹھتے ہیں
اٹھ کہ دیکھ لو تم بھی
ہم جگا کہ اٹھتے ہیں
خوں بہا کہ بیٹھے تھے
خوں بہا کہ اٹھتے ہیں
راجپوت جنگوں میں
سر کٹا کہ اٹھتے ہیں
موت...