نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    اختصاریہ (9)

    ہر انسان کے پاس کچھ ایسا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں...ایک جیسے نظر آنے والے انسان اصل میں ایک جیسے نہیں ہیں۔ قدرت کا کمال یہ ہے کہ بظاہر ایک جیسے اشکال رکھنے والا انسان بھی ایک جیسی شکل نہیں رکھتا...لطف یہ ہے کہ سب کے پاس وہی رخسار ہیں' وہی پیشانی ہے وہی چہرہ ہے ...مگر صورت پھر بھی مختلف...نین سے...
  2. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    گلہ اب کریں کس سے تِیرہ شبی کا ہو جو شمس ہی دوست اس تِیرگی کا یہ تو بس یوں ہی جی گئے چار دن ہم چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا سنا ہے اندھیرے اسے لے گئے تھے کسی نے پتہ پھر کیا روشنی کا؟ ہمارا نہیں ہے تو پھر کیا ہے اس میں ارے یہ بہت بن گیا وہ کسی کا جبیں روزِ محشر ملی تیرے در سے بھئی واہ! لطف آ...
  3. نوید ناظم

    سُنتا جا مسافر۔۔۔۔

    انسانوں کی دنیا میں انسانوں سے بے نیاز ہو کر نہیں رہا جا سکتا' زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے دکھ سانجھے کرنے پڑتے ہیں' ایک دوسرے کی خوشیاں بانٹنی پڑتی ہے۔ یہ انسان کی وہ مجبوری ہے' جو ضروری ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے دم سے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ فطرت نے ہمیں مہربان بنایا اور ہم نے خود...
  4. نوید ناظم

    برائے اصلاح (بحرِخفیف)

    درد دل میں کہاں ہے' رہنے دو دکھ بھری داستاں ہے' رہنے دو بے وفائی پہ اب دلیلیں کیوں ہم پہ سب کچھ عیاں ہے' رہنے دو اس میں کردار تو نہیں شامل بس بیاں ہی بیاں ہے' رہنے دو یہ محبت نہ کر سکو گے تم اس میں بھی تو زیاں ہے' رہنے دو بیچ کر جو ضمیر ملتی ہے وہ بھی کوئی اماں ہے' رہنے دو دشت اس کو بھی راس...
  5. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفعول مفاعلن فعولن)

    اس دل میں مکیں کوئی نہیں ہے سچ کہہ دوں' نہیں کوئی نہیں ہے تُو بھی تو ہے باسی اِس جہاں کا تجھ پر بھی یقیں کوئی نہیں ہے دیکھے ہے کیا کہ دور تک بھی اے جانِ حزیں کوئی نہیں ہے وہ چھوڑ گیا محل یہ دل کا اب تخت نشیں کوئی نہیں ہے یہ ٹھیک ہے' ہوں گے حُسن والے تجھ سا تو حسیں کوئی نہیں ہے کرتا ہے تُو...
  6. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فاعلن مفاعیلن۔۔۔۔ ہزج مربع اشتر)

    تجھ سے جو محبت ہے وہ کھُلی حقیقت ہے اب تو قدر کا معیار صرف یہ کہ دولت ہے درد ہی چلو دے دو درد میں بھی لذت ہے دشت زاد جو ٹھہرے گھر سے ہم کو وحشت ہے جھانکتے ہو کیا دل میں اس میں صرف حسرت ہے تجھ کو بھول جاوں گا مجھ کو خود پہ حیرت ہے سچ خطیب بولے گا! اس میں اتنی جرات ہے میں وفا ہی کرتا ہوں یہ...
  7. نوید ناظم

    تازہ غزل (برائے اصلاح)

    اس لیے اب بھی راستے میں ہوں کہ میں چلتا ہی دائرے میں ہوں یہ مرا عکس ہے جو باہر ہے دیکھ میں خود تو آئینے میں ہوں میں عناصر بکھیر دوں اپنے تیرے کہنے پہ ضابطے میں ہوں رک سکوں اور نہ چل سکوں آگے کیا کروں سخت مرحلے میں ہوں بات تجھ سے کروں تو لگتا ہے جیسے خود سے ہی رابطے میں ہوں تُو کسی اور طرح...
  8. نوید ناظم

    نظم ۔۔۔۔ برائے اصلاح (فعولن)

    ایک متروک لفظ ! ترے دل پہ لکھا کوئی لٖفظ تھا میں وہی لفظ جس کے معانی کئی طرح کھُلتے' سمٹتے رہے ہیں پرت در پرت اور کئی زاویے تھے میں رچ بس گیا تھا تری گفتگو میں ہراک بات میرے بِنا نا مکمل ہوا کرتی تیری، مگر وقت بدلا نئے لفظ اب تو جنم لے چکے ہیں ان الفاظ میں اب تجھے میں دکھائی نہیں دے رہا ہوں...
  9. نوید ناظم

    برائے اصلاح ( مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن)

    مجھ کو زمیں بھلی ہے تو آسماں کو رکھ لے یہ خاک مجھ کو اچھی تو کہکشاں کو رکھ لے اللہ کس لیے مجھ کو برق کہہ رہی ہے چل میری جان اب تو بھی آشیاں کو رکھ لے الفاظ کی سخاوت سے بھوک کیوں مٹے گی بہتر یہی دہن میں اپنی زباں کو رکھ لے تیرے یقین سے بھاری جو نہ ہو تو کہنا پلڑے میں اک طرف تو میرے گماں کو رکھ...
  10. نوید ناظم

    اختصاریہ (8)

    پہلا کام یہ ہے کہ انسان یہ دریافت کرے کہ اس کے ذمہ کون سا کام ہے' دوسرا کام یہ کہ پھر اس کی تکمیل کے لیے کوشش کرے۔ انسان کے پاس محدود زندگی ہے اور لامحدود آپشنز۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سیاست پر تنقید کرتا رہے اور کسی دن یہ مکاشفہ ہو کہ سیاست اس کا شعبہ نہ تھا۔۔۔ اپنے شعبہ سے باہر رائے دینا کم علمی...
  11. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن)

    یہ کرشمہ بھی محبت میں دکھانا ہو گا اس ستم گر کو کسی طرح بھلانا ہو گا کون ہو گا جو مِرا ساتھ دے گا فرقت میں ساتھ تیرے تو چلو ایک زمانہ ہو گا بزم میں جب بھی رقیب آئے تو یوں کہتا ہے اٹھ' کہ اب تجھ کو بھی اس بزم سے جانا ہو گا ہم نے یہ سوچ کے سینے میں چھپایا ہے درد اتنی مشکل سے ملا ہے تو خزانہ ہو...
  12. نوید ناظم

    تعلق۔

    تعلق قائم کرنے سے پہلے تعلق کو define کرنا ضروری ہے...اگر کسی کے ساتھ ادب کا تعلق ہے تو پھر بے تکلّفی مناسب نہیں...دوستی ہے تو پھر دوستی کے تقاضے اور ہیں. تعلق کے متعلق سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ یہ عمر بھر کے لیے ہوتا ہے. ..اسے قائم کرنا شرط نہیں مگر نبھانا شرط ہے...اللہ والوں کے متعلق کہا...
  13. نوید ناظم

    برائے اصلاح ( مفعولن فاعلن فعولن)

    دل جو پہلو میں تھا ' نہیں ہے کیا یہ بھی سانحہ نہیں ہے؟ اس نے خود چُن لی ہے جدائی یہ دوری' حادثہ نہیں ہے مجھ کو بس ہجر کھا رہا ہے مجھ کو کچھ عارضہ نہیں ہے جس کا بھی ہو مری بلا سے وہ دلبر جو مرا نہیں ہے کیوں خود کو دیکھتے ہو ان میں آنکھیں ہیں' آئنہ نہیں ہے اک دل ہے میرے پاس لیجے ورنہ تو کچھ...
  14. نوید ناظم

    لُوکی۔۔۔

    اکلاپے ویکھو سہہ گئے لوکی کلّے کلّے رہ گئے لوکی ظالم نے جد جیباں بھریاں چپ چپیتے ٹھہہ گئے لوکی اپنی انا نوں پِیر بنا کے قدماں دے وچ بہہ گئے لوکی کون کسے دا ساتھ نبھاوے ہن اوہ کتّھے رہ گئے لوکی اپنی جنس ہی مارن لگ پئے لوکاں نال ای کھہہ گئے لوکی اہہ کچیاں کندھاں ورگے سن کِنّی چھیتی ڈھہہ گئے...
  15. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

    دل پہ تیرا فسوں نہیں چلنا اب پرانا جنوں نہیں چلنا کیوں میاں کیا ہو تم' تمھارے بعد کارِ دنیا یہ کیوں نہیں چلنا عشق میں ہجر کیوں مقدر ہو اب یہ قصہ بھی یوں نہیں چلنا یہ محبت تو خوں رلائے گی دوست! اس میں سکوں نہیں چلنا دار کو جب نوید جائے تُو یاد رکھ سرنگوں نہیں چلنا
  16. نوید ناظم

    اختصاریہ (7)

    آسان کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان پیدا ہو اور مر جائے...زندہ رہنا ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے زندگی میں کچھ کرنا پڑتا ہے...صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے...دنیا اُسے یاد رکھتی ہے جو اس کو کچھ دے جائے' ورنہ دنیا سے شہرت حاصل کرنے والے بھی بڑی جلد گمنامی کے اندھیروں میں جا پہنچتے...
  17. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعل)

    میں تجھ کو بھلا دوں تو پھر کیا بنے یہ خود کو سزا دوں تو پھر کیا بنے نہ پوچھو مرا حالِ دل مجھ سے تم میں سچ سچ بتا دوں تو پھر کیا بنے جسے دیکھنے سےخدا یاد ہے وہ بت بھی گرا دوں تو پھر کیا بنے جو اک پردہ سا تجھ میں اور مجھ میں ہے اگر یہ ہٹا دوں تو پھر کیا بنے وہ جو بندگی سے ہی بیزار ہے میں اس کو...
  18. نوید ناظم

    غزل برئے اصلاح (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    درد شاید فزوں بھی ہو سکتا ہے اب دیکھ ہونے کو یوں بھی ہو سکتا ہے اب جس کے چہرے پہ خاموشی تھی دوستو شور اس کے دروں بھی ہو سکتا ہے اب پتھروں سے نکالے ہے فرہاد' نہر کوئی ایسا جنوں بھی ہو سکتا ہے اب؟ کر رہے ہو ستم ہم پہ کر لو مگر اس ستم میں سکوں بھی ہو سکتا ہے اب زلف اب اور بھی ہو گئی ہے دراز تجھ...
  19. نوید ناظم

    غزل برائے اصلاح (مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن)

    یوں بے قرار دل کو قرار آئے کیا پتہ دیکھو ذرا' وہ جانِ بہار آئے کیا پتہ مرجھا رہے ہیں پھول تو اپنے لہو سے سینچ تیرے لہو سے ان پہ نکھار آئے کیا پتہ آ کر بھی میکدے میں ادھوری رہی ہے بات آنکھوں سے گر پی لیں تو خمار آئے کیا پتہ دنیا کی گرد میں تو بھی اٹ جائے گا کبھی شاید مرے بھی دل پہ غبار آئے کیا...
  20. نوید ناظم

    تینوں عزرائیل سمجھاوے۔۔۔

    حلیہ بدلیں حالت ناہیں گل اصلی کیوں ہتھ آوے تینو چسکا کوڑی گل دا تینوں سچی کون سناوے تو بھَیڑ پھرولیں لوکاں دا تینوں اپنا نظر نہ آوے ایتھے انھّی بیٹھی پیونھ نوں ایتھے کُتی بیٹھی کھاوے بھَلیا توں کی سانوں جاننا تینوں اپنا آپ نہ بھاوے جیون والے ٹُر گئے سجنوں اہہ جندڈری کون ہنڈاوے ایتھے جنھے...
Top