نتائج تلاش

  1. م

    تعارف کون ہوں میں؟

    کون ہوں میں؟ کیا نام ہوں میں؟ کیا عمر ہوں میں؟ کیا جنس ہوں میں؟ قد کاٹھ ہوں میں؟ کیا ایک ہوں میں؟ یا لاکھ ہوں میں؟ میں ہوں بھی کیا؟ یا ہوں ہی نہیں؟ یہ سوالات کچھ دن پہلے میں اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا۔ یہ دن وہی تھا جب بہت پیارے اور محترم بھائی محمد عدنان اکبری نقیبی نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ...
  2. م

    شعلے ہی بتیوں میں مقدّر تھے موم کے - منیب الفؔ

    شعلے ہی بتیوں میں مقدّر تھے موم کے شب بوند بوند ٹپکے جو گوہر تھے موم کے جب تک نگاہ سامنے رکھی تھے آفتاب دیکھا جو ایک بار پلٹ کر تھے موم کے آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے اپنی...
  3. م

    جی سی میں آخری سال - منیب الف

    بی اے آنرز کے چار سال یعنی 2011ء سے 2015ء تک کا عرصہ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں اردو زبان و ادب پڑھتے گزرے۔ یہ نظم اسی عرصے کے اختتام پر لکھی گئی۔ میں چپ، آخری سال بھی چپ ہے جی سی کا گھڑیال بھی چپ بسّیں بھی خاموش کھڑی ہیں اور بخاری ہال بھی چپ ایمفی خالی، کیفے بند اور مسجد کا مینار خموش گزٹ کے...
  4. م

    شاید میں کچھ کر سکتا تھا - منیب الف

    شاید میں کچھ کر سکتا تھا زخمِ تمنا بھر سکتا تھا خوف سے تھر تھر کانپنے والے! خوف بھی تجھ سے ڈر سکتا تھا اُس راہی نے منزل ماری جو رستے میں مر سکتا تھا اُس کی آنکھیں بول رہی تھیں جس کے ہونٹوں پر سکتا تھا آہ وہ قطرۂ نیساں، موجو! جو سیپی میں اُتر سکتا تھا در در دیتا ہوں آوازیں ورنہ چپ بھی گزر...
  5. م

    حال جو دل کا سمجھ آئے کہا کرتے ہیں - منیب الف

    حال جو دل کا سمجھ آئے کہا کرتے ہیں بس اسی حال میں خوش حال رہا کرتے ہیں خواب ساحل کے کبھی آنکھ میں تیرے ہی نہیں بس جہاں موج بہاتی ہے بہا کرتے ہیں دل شگافی نے عجب رنگ دکھایا ہے منیب چوٹ اوروں کو لگے ہم ہی سہا کرتے ہیں
  6. م

    عدم سمونے میں لگ گیا ہے - منیب الف

    چند تازہ اشعار: عدم سمونے میں لگ گیا ہے وجود کھونے میں لگ گیا ہے جو ہے نہ ہونے سا لگ رہا ہے نہ ہے جو ہونے میں لگ گیا ہے وہ ناخدا ہوں جو اپنی کشتی کو خود ڈبونے میں لگ گیا ہے ابھی وہ میں تک نہیں گیا تھا جو ہم کو ڈھونے میں لگ گیا ہے کرامتوں کا سفید بادل نظر بھگونے میں لگ گیا ہے منیبؔ مرکز پہ لوٹتے...
  7. م

    ناز برداریوں میں کچھ بھی نہیں - منیبؔ الف

    چند تازہ اشعار پیش خدمت ہیں۔ احباب اپنی آرا سے نواز کر شکریے کا موقع عنایت فرمائیں: ناز برداریوں میں کچھ بھی نہیں دوست! اِن یاریوں میں کچھ بھی نہیں تو ہے گر رمزِ دل سے نا واقف تیری دل داریوں میں کچھ بھی نہیں اور ہی کوئی منتظم ہے یہاں تیری تیّاریوں میں کچھ بھی نہیں گرد ہی گرد ہے کتابوں کی اور...
  8. م

    جس پہ آغاز کی تہمت ہے وہ انجام ہی ہے - منیب احمد

    چند تازہ اشعار پیش خدمت ہیں۔ احباب اپنی رائے عنایت فرمائیں جبکہ اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے: جس پہ آغاز کی تہمت ہے وہ انجام ہی ہے صبح بھی صبح کے جیسی ہے مگر شام ہی ہے کامیابی نے سدا مجھ کو کیا ہے بےچین گرچہ ناکام ہوں لیکن مجھے آرام ہی ہے مجھ کو لگتا ہے کوئی چیز نہیں ہے موجود جس کو موجود سمجھتے...
Top