نتائج تلاش

  1. رشید حسرت

    شمشاد نہیں کرنا

    گو پنکھ نہیں پِھر بھی آزاد نہِیں کرنا نا شاد رکھو مُجھ کو تُم شاد نہِیں کرنا قد کاٹھ اگر دو گے، سمجُھوں گا تُمہیں بونا بونا ہی رکھو مُجھ کو شمشاد نہیں کرنا تُم عام سی لڑکی ہو، میں عام سا لڑکا ہوں شِیرِیںؔ نہ سمجھ بیٹھو، فرہادؔ نہِیں کرنا ایسے نہ اُجڑ جانا دیکھو تو کہّیں تُم بھی بستی ہی کوئی...
  2. رشید حسرت

    شاد نہیں کرنا

    دیکھو تو مِرے دِل پہ یہ جو چھالا ہُؤا ہے اِس واسطے تو پیار کو بھی ٹالا ہُؤا ہے ہاں کر دو مِری جان اگر آیا ہے رِشتہ اور لڑکا بھی تو دیکھا ہؤا، بھالا ہُؤا ہے سب چھوڑ کے آئے تھے، مگر (آج کراچیؔ) ہم بِچھڑے ہُوؤں کے لِیےانبالہؔ ہُؤا ہے میں کب کا بِکھر جاتا غمِ دہر کے ہاتھوں بس گِرد مِرے غم کا تِرے...
  3. رشید حسرت

    انبالہ ہؤا ہے

    دیکھو تو مِرے دِل پہ یہ جو چھالا ہُؤا ہے اِس واسطے تو پیار کو بھی ٹالا ہُؤا ہے ہاں کر دو مِری جان اگر آیا ہے رِشتہ اور لڑکا بھی تو دیکھا ہؤا، بھالا ہُؤا ہے سب چھوڑ کے آئے تھے، مگر (آج کراچیؔ) ہم بِچھڑے ہُوؤں کے لِیےانبالہؔ ہُؤا ہے میں کب کا بِکھر جاتا غمِ دہر کے ہاتھوں بس گِرد مِرے غم کا تِرے...
  4. رشید حسرت

    بام پر نہیں ہوں گے

    آج چہچہاتے ہیں کل مگر نہیں ہوں گے آشنا سے یہ چہرے بام پر نہیں ہوں گے دل پہ ڈال کر ڈاکہ چُھپ کے بیٹھ جاتے ہیں جا کے دیکھ لیں لیکن، لوگ گھر نہیں ہوں گے پی کے ہم بہکتے تھے چھوڑ دی ہے اب یارو کھائی ہے قسم ہم نے، ہونٹ تر نہیں ہوں گے اُس کے من پسندوں میں ہم اگر نہیں شامل جان بھی لُٹا دیں تو معتبر...
  5. رشید حسرت

    غزل

    غزل اِک کام تِرے ذِمّے نمٹا کے چلے جانا میں بیٹھا ہی رہ جاؤں تُم آ کے چلے جانا دِل کو ہے یہ خُوش فہمی کہ رسمِ وفا باقی ہے ضِد پہ اڑا اِس کو سمجھا کے چلے جانا سِیکھا ہے یہی ہم نے جو دِل کو پڑے بھاری اُس رُتبے کو عُہدے کو ٹُھکرا کے چلے جانا بِیمار پڑے ہو گے، بس حفظِ تقدّم کو دو ٹِیکے ہی لگنے...
  6. رشید حسرت

    فریب کھا کر بھی

    اسے بُھلا نہ سکا میں کبھی، بُھلا کر بھی قرِیب رہتا ہے دل کے، وہ دُور جا کر بھی وہ جس کے ایک اِشارے پہ جان حاضر کی اُسی نے منہ نہیں دیکھا کفن ہٹا کر بھی وہ ایک دور کہ تنہائیوں تھیں بزم مثال ابھی اکیلا ہوں محفل کوئی سجا کر بھی غضب خُدا کا ستم گر جلائے چشم چراغ کسی غریب کے دل کا دیّا بُجھا کر...
  7. رشید حسرت

    کور چشموں میں آئینے

    میں کور چشموں میں اب آئینے رکُھوں گا کیا کوئی پڑھے گا نہِیں مُجھ تو لِکُھوں گا کیا؟ میں دِل سے تھوڑی یہ کہتا ہوں "تُم بِچھڑ جاؤ" تُمہارے ہِجر کے صدمے میں سہہ سکُوں گا کیا؟ کوئی جو پُوچھے کہ شِعر و سُخن میں کیا پایا تو سوچتا ہوں کہ اِس کا جواب دُوں گا کیا؟ میں اپنے بچّوں کو بازار لے تو آیا ہوں...
  8. رشید حسرت

    اعری

    غزل چلو اب غور کر لیتے ہیں شائد کُچھ سُنائی دے محبّت ہر قدم کم ظرف لوگوں کی دُہائی دے لِکھی ہے میں نے عرضی اِس عِلاقے کے وڈیرے کو مِرا لُوٹا ہؤا سامان واپس مُجھ کو بھائی دے کہا بھائی سے میں نے تیری منگنی تو کرا ڈالی مگر شادی کی یہ ہے شرط کہ جا کر کما عِیدےؔ بڑھی مہنگائی تو یارو، ہوئی ہے...
  9. رشید حسرت

    غزل۔

    غزل مِرے بِستر پہ آتے ہی تصّوُر جاگتا ہے تِری پائل کی چھن چھن سا کوئی سُر جاگتا ہے کوئی بد بخت اُس شب کو بدل لیتا ہے خیمہ مُقدّر جاگتا ہے حُر کا، سو حُر جاگتا ہے اگرچہ تُم سے بِچھڑے بھی زمانے ہوگئے ہیں ابھی تک تیرے لہجے کا ہی تاثُر جاگتا ہے بہُت مُحتاط رہنے کی ضرُورت پِھر بھی ہوگی یقیں جِتنا...
  10. رشید حسرت

    غزل::دیکھا نہ کبھی تُم نے سُنا، دیکھتا ہوں میں::رشید حسرت

    غزل دیکھا نہ کبھی تُم نے سُنا، دیکھتا ہوں میں بس تُم کو نہیں اِس کا پتا دیکھتا ہوں میں چہروں کی لکِیروں کے مُجھے قاعدے از بر پڑھتا ہوں وہی جو بھی لِکھا دیکھتا ہوں میں ماضی کے جھروکوں سے نہیں جھانک ابھی تُو (غش کھا کے گِرا) شخص پڑا دیکھتا ہوں میں کہنے کو تِرا شہر بہُت روشن و تاباں ہر چہرہ مگر...
  11. رشید حسرت

    غزل۔

    غزل ہستی کا مِری حشر بپا دیکھتے ہوئے وہ رو ہی دیا مُجھ کو بُجھا دیکھتے ہوئے ہم وہ کہ کبھی وقت سے بھی ہار نہ مانیں برباد کِیا آپ نے کیا دیکھتے ہوئے انجان علاقہ تھا، کِیا میں نے تعیُّن قِبلے کا، فقط قِبلہ نُما دیکھتے ہوئے مرمر تھا ماں کی قبر پہ نہ باپ کی کبھی چھلکی ہے آنکھ کتبہ لگا...
  12. رشید حسرت

    غزل:: بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو:: از رشید حسرت

    غزل بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو نہیں ہے زِیست بھی ہرگز عزِیز ہم کو تو وہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہا گُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو تو کہاں کے مِیر ہیں، پُوچھو فقِیر لوگوں سے نہِیں ہے ڈھب کی میسّر قمِیض ہم کو تو بڑوں سے دِل سے عقِیدت ہے پیار چھوٹوں سے خیال کرتے ہو جو بد...
  13. رشید حسرت

    غزل

    غزل جو گِیت اوروں کے بے وجہ گانے لگتے ہیں تو ہوش دو ہی قدم میں ٹِھکانے لگتے ہیں بِگاڑنا تو تعلُّق کا ہے بہت آساں اِسے بنانے میں لیکِن زمانے لگتے ہیں کبھی وہ آ نہِیں سکتا کبھی ہے رنجِیدہ مُجھے تو یہ کوئی جُھوٹے بہانے لگتے ہیں یہ سِین ہے کہ ملے ہیں وہ ایک مُدّت بعد مُہر بہ لب ہی ہتِھیلی...
  14. رشید حسرت

    غزل

    میں ہُوں ذرّہ تُو اگر آفتاب اپنے لیئے تیرے سپنے ہیں، مِرے ٹُوٹے سے خواب اپنے لیئے میں نے سوچا ہے کِسی روز چمن کو جا کر چُن کے لاؤں گا کوئی تازہ گُلاب اپنے لیئے جِن کی تعبِیر نہِیں خواب وہ دیکھے میں نے شب گُزشتہ ہی تو سُلگائے وہ خواب اپنے لیئے تِیس پاروں کے تقدُّس کی قسم کھاتا ہوں نُور کا...
  15. رشید حسرت

    غزل

    غزل ہے اِس کا ملال اُس کو، ترقّی کا سفر طے کیوں میں نے کیا، کر نہ سکا وہ ہی اگر طے جو مسئلہ تھا اُن کا بہت اُلجھا ہؤا تھا کُچھ حِکمت و دانِش سے کِیا میں نے مگر طے ہو جذبہ و ہِمّت تو کٹِھن کُچھ بھی نہِیں ہے ہو جائے گا اے دوستو دُشوار سفر طے کِس طرز کا اِنساں ہے، نسل کیسی ہے اُس کی بس ایک...
  16. رشید حسرت

    غزل

    غزل مُفتی و قاضی کی کرتے ہیں نہ مُلّاؤں کی بات ہم تو کرتے ہیں فقط اے دوستو گاؤں کی بات دور لوّر کا ہے سو بیٹھے ہیں اُس کے پاؤں میں مانتے ہیں باپ کی نہ نوجواں ماؤں کی بات اور بھی تو مسئلے تھے حل طلب اِس بِیچ میں پاک و بھارت کر رہے ہیں صِرف دریاؤں کی بات ہم کہ صحرا، خُشکی و دشت و بیاباں کے...
  17. رشید حسرت

    غزل:: سُکوں وہ لے گیا تھا ساتھ، اب آرام کھو بیٹھے:: از رشید حسرت

    غزل سُکوں وہ لے گیا تھا ساتھ، اب آرام کھو بیٹھے یہ کِس سے پڑ گیا پالا کہ دِل سے ہاتھ دھو بیٹھے پریشاں ڈُھونڈتے پِھرتے ہیں بچّے بُوڑھے بابا کو اُدھر وقتوں کے قِصّوں میں ہیں گُم سُم یار دو بیٹھے بڑوں کے فیصلوں کو ٹال کر کرتے تھے من مانی ابھی ہم رو رہے ہیں دوستو تقدِیر کو بیٹھے "نشِستیں تو...
  18. رشید حسرت

    غزل

    مِیت من کو بھا جائے، رُوپ وہ سجا لیں گے پیار ہولی کھیلیں گے، رنگ ہم اُچھالیں گے جِتنی دُور جا بیٹھو ڈُھونڈ کر ہی لیں گے دم تم نے دِل نِچوڑا ہے، ہم تو خُوں بہا لیں گے ہم بھی کم نہیں تُم سے، پیار کو سمجھتے ہیں تُم نے یاد پالی ہے، ہم بھی درد پالیں گے قافلے تھے عُجلت میں ہم کو روتا چھوڑ آئے دِل...
  19. رشید حسرت

    غزل

    کچھ نہیں تعلّق پر، میرا نام گُوگل پر لکھ کے سرچ کِیجے گا شعر ہیں مِرے پِھیکے پِھر بھی ہے توقع سِی کُھل کے داد دِیجئے گا بات کیا قبا کی ہو، اے مِرے رفُوگر دیکھ، دل بھی اب دریدہ ہے کام کر توجہ سے، چھید نا رہے باقی سارے چاک سِیجے گا چاہتے ہو گر یارو لُطف ماورا آئے، آبِ آتشیں سے، تو اشک مُ الخبائث...
  20. رشید حسرت

    غزل::وہ بھلے سِتمگر ہوں، تلخ کیوں رکُھوں لہجہ مُجھ سے تو نہِیں ہو گا:: رشید حسرت

    غزل وہ بھلے سِتمگر ہوں، تلخ کیوں رکُھوں لہجہ مُجھ سے تو نہِیں ہو گا سوچنا بھی ایسا کیا، توبہ ہے مِری توبہ مُجھ سے تو نہِیں ہو گا سِلسِلے عقِیدت کے، کم کبھی نہِیں ہوں گے، چاہے آزماؤ بھی پیار فاختاؤں پر کِس لِیئے رکُھوں پہرہ، مُجھ سے تو نہِیں ہو گا زخم جو بھی بخشیں گے اُن میں پُھول بانٹُوں گا...
Top