طلوع سحر
سحر کے وقت دفتر کو رواں ہوں
رواں ہوں، ہمرہِ صد کارواں ہوں
سرِ بازار انسانوں کا انبوہ،
کسی دستِ گل اندوزِ حنا نے
زمانے کی حسیں رتھ کی لگامیں
کسی کف پر خراشِ خارِ محنت،
عدم کے راستے پر آنکھ میچے
کوئی آگے رواں ہے کوئی پیچھے
سڑک کے موڑپر نالی میں پانی
تڑپتا تلملاتا جا رہا...