نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    416 بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے دکھلائی دے جہاں تک، میدان ہورہا ہے اس منزلِ جہاں کے باشندے رفتنی ہیں ہر اک کے یاں سفر کا سامان ہورہا ہے قرباں گہِ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سُو دشوار جان دینا آسان ہو رہا ہے
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    415 دل ک معمورے کی مت کر فکر، فرصت چاہیے ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے عاقبت فرہاد مر کر کام اپنا کر گیا آدمی ہووے کسی پیشے میں ، جرات چاہیے ہو طرف مجھ پہلواں شاعر کا کب عاجز سخن سامنے ہونے کو صاحب فن کی قدرت چاہیے عشق و وصل و جدائی سے نہیں کچھ گفتگو قرب و بُعد اس جا...
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    413 اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے بس ہم نہ برا مانیں، تو کون برُا مانے سرمایہء صد آفت دیدار کی خواہش ہے دل کی تو سمجھ لیجیے گر چشم کہا مانے ٹک حالِ شکستہ کے سننے ہی میں سب کچھ ہے پر وہ تو سخن رس ہے اس بات کو کیا مانے بے طاقتیِ دل نے سائل بھی کیا ہم کو پرمیر فقیروں کی یاں کون...
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    412 قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے گُلوں میں جن کی خاطر خرقے ڈالے نہیں اُٹھتا دلِ مخزوں کا ماتم خدا ہی اس مصیبت سے نکالے کہاں تک دور بیٹھے بیٹھے کہیے کبھو تو پاس ہم کو بھی بُلالے تپش نے دل جگر کی مار ڈالا بغل میں دشمن اپنے ہم نے پالے کسے قیدِ قفس میں یاد گُل کی پڑے ہیں اب تو جینے...
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    411 اب جو اک حسرتِ جوانی ہے عمرِ رفتہ کی یہ نشانی ہے رشکِ یوسف ہے آہ وقتِ عزیز عمر اک بارِ کاروانی ہے گریہ ہر وقت کا نہیں ہے ہیچ دل میں کوئی غمِ نہانی ہے خاک تھی موج زن جہاں میں اور ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے ہم قفس زاد قیدی ہیں ورنہ تا چمن ایک پرفشانی ہے اس کی شمشیرِ تیز...
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    410 عشق میں نَے خوف و خطر چاہیے جان کو دینے کا جگر چاہیے ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اُس کی لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے نقطہء خال سے ترا ابرو بیت اک انتخاب کی سی ہے میں جو بولا، کہا کہ...
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    409 عشق میں نَے خوف و خطر چاہیے جان کو دینے کا جگر چاہیے ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اُس کی لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے نقطہء خال سے ترا ابرو بیت اک انتخاب کی سی ہے میں جو بولا، کہا کہ...
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    408 قابلِ آغوش ستم دیدگاں اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے حال یہ پہنچا ہے کہ اب صعف سے اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے کم ہیں شناسائے زرِ داغِ دل اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس داغ بہ دل ، دست بہ سر چاہیے شرط سلیقہ ہے ہر ایک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے خوف...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    407 ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گُل کے بُو گئی کچھ دماغ میں گُل کے جانے روغن دیا کرے ہے عشق خونِ بلبل، چراغ میں گُل کے دل تسلی نہیں صبا ورنہ جلوے سب ہیں گے داغ میں گُل کے اس حدیقے کے عیش پر مت جا مے نہیں ہے ایاغ میں گُل کے سیر کر میر اس چمن کی شتاب ہے خزاں بھی سراغ میں گُل کے
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    چمن یار تیرا ہَوا خواہ ہے گُل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے سراپا میں اُس کے نظر کرکے تم جہاں دیکھو اللہ اللہ ہے تری آہ کس سے خبر پائیے وہی بے خبر ہے جو آگاہ ہے مرے لب پہ رکھ کان، آواز سن کہ اب تک بھی یک ناتواں آہ ہے گزر سر سے، تب عشق کی راہ چل کہ ہر گام یاں اک خطر گاہ ہے کبھو...
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    405 بہ رنگِ بوئے گُل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے کہ ہمراہِ صبا ٹک سیر کرتے، پھر ہوا ہوتے سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو وگرنہ ہم خدا تھے، گر دلِ بے مدعا ہوتے فلک اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم غبارِ راہ ہوتے یا کسو کی خاکِ پا ہوتے الہٰی کیسے ہوتے ہیں جنھیں ہے بندگی خواہش...
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    404 کس طور ہمیں کوئی فریبندہ لبھا لے آخر میں تری آنکھوں کے ہم دیکھنے والے سو ظلم اُٹھائے تو کبھو دور سے دیکھا ہر گز نہ ہوا یہ کہ ہمیں پاس بلا لے عشق ان کو ہے جو یار کو اپنے دمِ رفتن کرتے نہیں غیرت سے خدا کے بھی حوالے وے دن گئے جو ضبط کی طاقت تھی ہمیں بھی اب دیدہء خوں بار نہیں جاتے...
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    403 زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے موند لیں آنکھیں ادھر سے تم نے پیارے دیکھیے لختِ دل کب تک الہٰی چشم سے ٹپکا کریں خاک میں تاچند ایسے لعل پارے دیکھیے ہو چکا روز جزا اب اے شہیدانِ وفا چونکتے ہیں خونِ خفتہ کب تمہارے، دیکھیے راہِ دورِ عشق میں اب تو رکھا ہم نے قدم رفتہ رفتہ پیش...
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    402 اندوہ وصل و ہجر نے عالم کھپا دیا ان دو ہی منزلوں میں بہت یار تھک گئے وے مے گسار ظرف جنھیں خُم کشی کے تھے پھر کر نگاہ تُو نے جو کی ووں ہی چھک گئے
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    401 بلا کا شکر کر اے دل کہ اب معلوم ہوتی ہے حقیقت عافیت کی اُس گلی کے رہنے والوں سے نہیں اے ہم نفس اب جی میں طاقت دوریِ گُل نہیں جگر ٹکڑے ہوا جاتا ہے آخر شب کے نالوں سے نہیں خالی اثر سے تصفیہ دل کا محبت میں کہ آئینے کو ربطِ خاص ہے صاحب جمالوں سے کہاں یہ قامتِ دل کش، کہاں پاکیزگی...
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    400 گئے جی سے ، چھوٹے بتوں کی جفا سے یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے وہ اپنی ہی خوبی پہ رہتا ہے نازاں مرو یا جیو کوئی ، اُس کی بلا سے پشیماں توبہ سے ہوگا عدم میں کہ غافل چلا شیخ لطفِ ہوا سے اگر چشم ہے تو وہی عین حق ہے تعصب تجھے ہے، عجب ماسوا سے طبیب سُبک عقل ہرگز نہ سمجھا ہوا دردِ...
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    کب سے نظر لگی تھی دروازہء حرم سے پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے صورت گرِ اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو کھینچی وہ تیغِ ابرو فولاد کے قلم سے سوزش گئی نہ دل کی رونے سے روز و شب کے جلتا ہوں، اور دریا بہتے ہیں چشمِ نم سے کُڑھیے، نہ رویئے تو اوقات کیوں کر کزرے رہتا ہے مشغلہ سا بارے غم...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    398 گُل گشت کی ہوس تھی سو تو بگیر آئے آئے جو ہم چمن میں، ہو کر اسیر آئے فرصت میں یک نفس کی کیا دردِ دل سنو گے آئے تو تم ، ولیکن وقتِ اخیر آئے دلی میں اب کے آکر اُن یاروں کو نہ دیکھا کچھ وے گئے شتابی، کچھ ہم بھی دیر آئے کیا خوبی اس چمن کی موقوف ہے کسو پر گُل گر گئے عدم کو، مکھڑے...
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    397 ٹپکتے درد ہیں آنسو کی جاگہ الہٰی چشم یا زخمِ کہن ہے شہادت گاہ ہے باغِ زمانہ کہ ہر گُل اس میں اک خونیں کفن ہے کروں کیا حسرتِ گُل کو، وگرنہ دلِ پُر داغ بھی اپنا چمن ہے جو دے آرام ٹک آوارگی میر تو شامِ غربت اک صبح وطن ہے
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    396 دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانہء دل سے زینہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے! نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں ایک آشوب واں سے اٹھتا...
Top