کب سے نظر لگی تھی دروازہء حرم سے
پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے
صورت گرِ اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو
کھینچی وہ تیغِ ابرو فولاد کے قلم سے
سوزش گئی نہ دل کی رونے سے روز و شب کے
جلتا ہوں، اور دریا بہتے ہیں چشمِ نم سے
کُڑھیے، نہ رویئے تو اوقات کیوں کر کزرے
رہتا ہے مشغلہ سا بارے غم...