443
ہوا مذکور نام اُس کا کہ آنسو بہہ چلے منھ پر
ہمارے کام سارے دیدہء تر ہی ڈبوتا ہے
ہلانا ابروؤں کا، لے ہے زیرِ تیغ عاشق کو
پلک کا مارنا ، برچھی کلیجے میں چبھوتا ہے
کہاں اے رشکِ آبِ زندگی ہے تُو کہ یاں تجھ بن
ہر اک پاکیزہ گوہر جی سے اپنے ہاتھ دھوتا ہے
نہ رکھو کان نظمِ شاعرانِ حال پر...