چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
اس شعر میں پہلا مصرع ۔۔ چمن ظہور کا ۔۔ نہیں ۔ چمن سرود کا ۔۔ ہے
بدر گاہِ ذی شانِ خیر الانام
شفیع الوریٰ مرجع خاص و عام
بصَد عجز و منت بصَد احترام
یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام
کہ اے شاہ ِکونین عالی مقام
عَلیکَ الصّلوٰۃُ عَلیکَ السّلام
حسینان عالم ہوئے شرمگیں
جو دیکھا وہ حُسن اور وہ نُور ِجبیں
پھر اِس پر وہ اخلاق اکمل تریں
کہ دُشمن بھی کہنے لگے آفریں
زہے...
کاش اس عقیدت مندانہ جذبات کے لئے عافیہ صدیقی کا خاوند بھی شامل ہوتا۔ وہ بھی پکا مسلمان ہے۔ اور عافیہ کے بچوں کا باپ بھی ہے۔ اس کی گواہی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نہیں۔ ہم اس قسم کے جذباتی باتوں سے اتنا دھوکہ کھا چکے ہیں کہ اب پانی بھی پُن کر پیتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ دھماکے کے مفروضے تو معاملہ اور ہی آسان ہو جاتا ہے۔ یہ جو کُن ہے یہی تودھماکے کا باعث ہے ۔ جس طرح کن ایک لمحے کا لمحہ ہے اور ہماری سمجھنے کی رفتا ر کن کے وقوعہ کی رفتا ر کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتی
یہ ایک مفروضہ ہی ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے مانے جس کو اشتباہ ہے انکار کر دے۔ اس سے سورج کے اترنے چڑھنے میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ بیمار بچے کا بخار اترے گا۔
خدا
؎ جو رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
اگر کوئی خدا کو مانے یا نہ مانے فرق نہیں پڑتا ۔ فرق پڑتا ہے خدا کے احکام کو ماننے یا نہ ماننے سے۔ خدا کا اقرار کرکے جھوٹ ۔ چوری ۔ دھوکہ ۔ قتل کرنا ۔زیادہ بڑا جرم ہے۔
اہل سفا سے مراد مدینہ میں دھونی رما کر علم سیکھنے والے تھے جنہیں مکہ سے نکال کر مردود حرم قرار دیا گیا تھا۔ بہت ہی لطیف بیان ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے واقفیت اس نظم کا لطف دوبالا کر دیتی ہے