گود
پارک پہنچتے ہی بچی نے جھولا لینے کی ضد شروع کر دی تھی۔
اُس نے بہت سمجھایا تھا، "چھوٹی ہو۔۔۔۔گِر جاؤ گی"، پر بچی اپنی ضد کی پکّی تھی۔ چار و ناچار وہ اُسے جھولوں کے قریب لے آئی تھی اور ایک پینگ میں بٹھا کر بہت آرام سے جھولا دینے لگی تھی۔ جھولے کے ہمراہ حرکت کرتے کرتے اُس کا ذہن پارک سے نکل...
ہیئر برش
"گدھا!"
اماں نے برش زور سے زمین پر پٹخا۔ پاس بیٹھے ہوئے راحیل کا دل دہل گیا۔ اُس نے اپنی ماں کو یوں بے قابو ہوتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ناراض ہوتے دیکھا تھا، بچپن کی پٹائی اور ڈانٹ بھی یاد تھیں، پر اِن میں کبھی ایسی بے بسی نہیں تھی جو اب اماں کے چہرے پر تڑپ رہی تھی۔
"صاف ہی نہیں ہو...
پرانے خدا
تحریر: کرشن چندر
متھرا کے ایک طرف جمناہے اور تین طرف مندر ، اس حددو اربعہ میں نائی حلوائی ، پانڈے ، پجاری اور ہوٹل والے بستے ہیں۔جمنا اپنارُخ بدلتی رہتی ہے۔نئے نئے عالی شان مندر بھی تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔لیکن متھرا کاحدوداربعہ وہی رہتا ہے، اس کی آبادی کی تشکیل اور تناسب میں کوئی کمی...
سفید بھیڑ
محمداحمد
کلیِم کو نہ جانے کیا تکلیف ہے۔
وہ اُن لوگوں میں سے ہے جو نہ خود خوش رہتےہیں نہ دوسروں کو رہنے دیتے ہیں۔
18 تاریخ ہو گئی ہے اور مجھے ہر حال میں 25 سے پہلے پہلے احمر کی فیس جمع کروانی ہے۔ پیسوں کا بندوبست بھی سمجھو کہ ہوگیا ہے لیکن بس ایک کانٹا اٹکا ہوا ہے اور وہ ہے...
سلسلہ تکّلم کا
محمد احمدؔ
کِسی کی آواز پر اُس نے چونک کر دیکھا ۔
اُسے بھلا کون آواز دے سکتا ہے، وہ بھی اِ س محلے میں جہاں اُسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
اُسے دور دور تک کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا ۔ ایک جگہ کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر اُسے...
شو شو
(سعادت حسن منٹو)
گھر میں بڑی چہل پہل تھی۔ تمام کمرے لڑکے لڑکیوں، بچے بچیوں اور عورتوں سے بھرے تھے۔ اور وہ شور برپا ہو رہا تھا۔ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اگر اس کمرے میں دو تین بچے اپنی ماؤں سے لپٹے دودھ پینے کے لیے بلبلا رہے ہیں۔ تو دوسرے کمرے میں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ڈھولکی سے بے...
دس روپے
(تحریر سعادت حسن منٹو)
وہ گلی کے اس نکڑ پر چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اور اس کی ماں اسے چالی (بڑے مکان جس میں کئی منزلیں اور کئی چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں) میں ڈھونڈ رہی تھی۔ کشوری کو اپنی کھولی میں بٹھا کر اور باہر والے سے کافی چائے لانے کے لیے کہہ کروہ اس چالی کی تینوں...
امن کے بعد
تحریر: شینووا اچیبے
ترجمہ: خورشید اقبال
اوگبونسل کے اچیبے کا پورا نام البرٹ شینووا لوموگو اچیبے ہے۔ان کی پیدائش1930ء میں نائجریا کے شہر اوگیدی میں ہوئی۔ان کے والدین نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔شینووانےابادان یونیورسٹی سے انگریزی، تاریخ اور مذہبیات میں ڈگری حاصل کی۔یونیورسٹی میں...
ایک مضحکہ خیز آدمی کا خواب/فیودردوستوئیفسکی
تعارف و ترجمہ: عاصم بخشی
یوں تو دوستووسکی کے تمام ادبی کام میں فلسفۂ وجودیت کے تحت انسانی نفسیات کا مطالعہ ایک مستقل موضوع کے طور پر سامنے آتا ہے پھر بھی نقادوں کے نزدیک اس کے مختصر ناول ’زیرِ زمین رسائل‘ (Notes from Underground) کو فرانسیسی مصنف...
چنڈال
کئی روز سے وہ سارا سارا دن ریاست نائی کے حمام پر ہی بیٹھا کیبل پر نانا پاٹیکر کی فلمیں دیکھتا رہتا۔ دوسرے محلے کے کسی حمام میں آ کر سارا دن بیٹھے رہنے کے اس اچانک سے بننے والے معمول نے اسے محلے والوں کی نگاہ میں مشکوک تو کر دیا تھا لیکن ریاست کے سوا ابھی تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اصل...
ہتّک
(تحریر: سعادت حسن منٹو)
دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اورلیٹتے ہی سوگئی تھی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغۂ صفائی، جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی۔ ابھی ابھی اُس کی ہڈّیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور، گھرواپس گیاتھا—— وہ رات کو یہاں بھی ٹھہر جاتا مگر...
لاجونتی
(تحریر: راجندر سنگھ بیدی)
’’ ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے …‘‘
(یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)
—— ایک پنجابی گیت
بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اُٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے بدن صحیح و سالم...
مہربانی
از : محمداحمدؔ
آج میں نے پوری سترہ گیندیں بیچیں۔ ایک دو نہیں ۔ پوری سترہ۔ جب سے اسکولوں کی چھٹیاں ہوئی ہیں آٹھ دس گیندیں بیچنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن آج ہم گھومتے گھومتے ایک بڑے سے پارک تک پہنچ گئے۔ اب پتہ چلا کہ اسکول بند ہو تو بچے کہاں جاتے ہیں۔
میں اور مُنی پارک کے دروازے پر ہی...
سرخ ٹوپی
(تحریر: احمد ندیم قاسمی)
اس نے کپڑا نچوڑ کر الگنی پر لٹکایا اور منڈیر پر بیٹھے ہوئے کوے کو دیکھ کر بولی! تو جل مرے موئے کالے کلوٹے بھتنے، کائیں کائیں سے میرا مغز چاٹ لیتا ہے۔ گاؤں بھر میں کیا یہی منڈیر اچھی لگتی ہے تجھے؟ اور اس نے اپنا پرانا جوتا پوری قوت سے منڈیر پر پھینکا۔ کوا کائیں...
سوا سیر گیہوں
[تحریر: منشی پریم چند]
پہلی بار: ہندی میں اسی عنوان سے ’’چاند ‘‘نومبر 1924میں شائع ہوا۔
کتابی صورت میں: اردو میں 1929(فردوس خیال)
کسی گاؤ ں میں شنکر نامی ایک کسان رہتا تھا۔ سیدھا سادا غریب آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام، نہ کسی کے لینے میں، نہ کسی کے دینے میں، چھکاپنجا نہ جانتا تھا۔...
سندھ پاکستان کے نامور ادیب، شیخ ایّاز کے قلم سے
ہنس مکھ
اس کی سادگی میں چالاکی تھی، چالاکی میں سادگی۔ کبھی بچے کی طرح دوڑتی ناچتی آیا کرتی تھی اورمیرے پیچھے سے آ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتی۔ کبھی میرے بال بکھیر کر کہتی۔ ’’دیکھو تو کیسے لگ رہے ہو؟‘‘ اور پھر شیشہ اٹھا کر ہاتھ میں دے دیتی۔ کبھی میں...
بابا نور
(احمد ندیم قاسمی)
’’کہاں چلے بابانور؟‘‘ایک بچے نے پوچھا۔ ’’بس بھئی،یہیں ذرا ڈاک خانے تک۔‘‘بابا نور بڑی ذمے دارانہ سنجیدگی سے جواب دے کر آگے نکل گیا اور سب بچے کھلکھلاکر ہنس پڑے ۔ صرف مولوی قدرت اللہ چپ چاپ کھڑا بابا نور کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ بولا’’ہنسو نہیں بچو۔ ایسی باتوں پر ہنسانہیں...
سائیں بابا کا مشورہ
(کنہیا لال کپور)
میرے پیارے بیٹے مسٹر غمگین!
جس وقت تمھارا خط ملا، میں ایک بڑے سے پانی کے پائپ کی طرف دیکھ رہا تھا جو سامنے سڑک پر پڑا تھا۔ ایک بھوری آنکھوں والا ننھا سا لڑکا اس پائپ میں داخل ہوتا اور دوسری طرف سے نکل جاتا، تو فرطِ مسرت سے اس کی آنکھیں تابناک ہو جاتیں۔ وہ...
اجنبی آنکھیں
(تحریر: کرشن چندر)
چہرے پر اُس کی آنکھیں بہت عجیب تھیں۔ جیسے اس کا سارا چہرہ اپنا ہو اور آنکھیں کسی دوسرے کی جو چہرے پر پپوٹوں کے پیچھے محصور کر دی گئیں۔ اس کی چھوٹی نوک دار ٹھوڑی، پچکے لبوں اور چوڑے چوڑے کلّوں کے اوپر دو بڑی بڑی گہری سیاہ آنکھیں عجیب سی لگتی تھیں۔ پورا چہرہ...
آخری سیلیوٹ
(سعادت حسن منٹو)
یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔
پچھلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ مارنا اور مرنا جانتا تھا۔ چھوٹے بڑے افسروں کی نظر میں اسکی بڑی توقیر تھی، اس لیے کہ وہ بڑا بہادر، نڈر...