غزل
بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
سب سے چُھپ کر وہ کِسی کا دیکھنا اچھا لگا۔ ۔ ۔۔
سُر مئی آنکھوں کے نیچے پُھول سے کِھلنے لگے۔
کہتے کہتے کُچھ کسی کا سوچنا ، اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بات تو کُچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دَم۔ ۔
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا...
اے شمعِ کوئے جاناں
ہے تیز ہوا ، مانا
لَو اپنی بچا رکھنا ۔ رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں
آئے گا یہاں کوئی ، کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ہوا وعدہ ، مٹی سے اُٹھانے کو
پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ہوگا
چہرے کی دراڑوں میں
بیتے ہوئے برسوں کا
ایک ایک نشاں ہوگا
بولے...
زندگی بھی مہنگی ھے، موت بھی نہیں سستی
یہ زمین بے سایہ
گھر گئی خدا جانے کن عجب عذابوں میں
بے وجود سایوں کا یہ جو کارخانہ ھے
کن عجب سرابوں میں کس طرف روانہ ھے؟
نیستی ھے یا ہستی!
زندگی بھی مہنگی ھے موت بھی نہیں سستی
(امجد اسلام امجد)
یہ جو اب موڑ آیا ھے
یہاں رک کر کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ھے
کہ یہ اس راستے کا ایک حصہ ہی نہیں، سارے
سفر کا جانچنے کا ، دیکھنے کا ، بولنے کا
ایک پیمانہ بھی ھے، یعنی
یہ ایسا آئینہ ھے
جس میں عکسِ حال و ماضی اور مستقبل
بہ یک لمحہ نمایاں ہے
یہ اس کا استعارہ ھے
سنا ھے ریگِ صحرا کے سفر میں...
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے...
كوئی بھی لمحہ كبھی لوٹ كر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
وفا كے دشت میں رستہ نہیں ملا كوئی
سوائے گرد سفر ہم سفر نہیں آیا
پَلٹ كے آنے لگے شام كے پرندے بھی
ہمارا صُبح كا بُھولا مگر نہیں آیا
كِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
كوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا
چلو كہ...
کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے
سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے
یہ بستی ہے ستم پروردگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
کنارا...
یہ دشتِ ہجر یہ وحشت یہ شام کے سائے
خدا یہ وقت تری آنکھ کو نہ دکھلائے
اسی کے نام سے لفظوں میں چاند اترے ہیں
وہ ایک شخص کہ دیکھوں تو آنکھ بھر آئے
کلی سے میں نے گلِ تر جسے بنایا تھا
رتیں بدلتی ہیں کیسے، مجھے ہی سمجھائے
جو بے چراغ گھروں کو چراغ دیتا ہے
اسے کہو کہ مرے شہر کی طرف آئے
یہ...
تم سچے برحق سائیں
سے سے لیکر پیروں تک
دنیا شک ہی شک سائیں
تم سچے برحق سائیں
اک بہتی ریت کی دہشت ہے
اور ریزہ ریزہ خواب مرے
بس ایک مسلسل حیرت ہے
کیا ساحل ، کیا گرداب مرے
اس بہتی ریت کے دریا پار
کیا جانے ہیں کیا کیا اسرار
تم آقا چاروں طرف کے
اور مرے چار طرف دیوار
اس دھرتی سے افلاک تلک...
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے
مشعلِ خواب کچھ اس بجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سِل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے
اب دھندلکے بھی نہیں زینت ِ چشمِ بے خواب
آس کا روپ...
میرے گھر میں روشن رکھنا
چینی کی گُڑیا سی جب وہ
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی
میری جانب آتی ہے تو
اُس کے لبوں پر ایک ستارہ کِھلتا ہے
"پاپا"
اللہ۔ اس آواز میں کتنی راحت ہے
ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر جب وہ مجھ سے چُھوتی ہے تو
یوں لگتا ہے
جیسے میری رُوح کی ساری سچّائی
اس کے لمس میں جاگ اٹھتی ہے
اے مالک،...
ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لِكھی ہُوئی تحریر جو بھی تھی
ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
مِل جُل كے اپنی قوم كی تصویر جو بھی تھی
جو سامنے ہے، سب ہے یہ، اپنے كئے كا پھل
تقدیر كی تو چھوڑئیے، تقدیر جو بھی تھی
قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
ملبے كے مول بِك...
اِک نام کی اُڑتی خُوشبو میں اِک خواب سفر میں رہتا ہے
اِک بستی آنکھیں ملتی ہے، اِک شہر نظر میں رہتا ہے
کیا اہلِ ہُنر، کیا اہلِ شَرف، سب ٹکڑے، ردّی کاغذ کے
اِس دَور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہا ہے
پانی میں روز بہاتا ہے اِک شخص دئیے اُمیّدوں کے
اور اگلے دن تک پھر ان کے ہمراہ بھنور...
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مِرے آئنے میں تھے
ہر بات جانتے ہُوئے دِل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کِس مرحلے میں تھے
وصل و فراق دونوں ہیں اِک جیسے ناگزیر
کُچھ لطف اُس کے قُرب میں، کُچھ فاصلے میں تھے
سیلِ زماں کی موج کو ہر وار سہہ گئے
وہ دن، جو ایک ٹاٹے ہُوئے...
منظر کے اردگرد بھی اور آرپار دُھند
آئی کہاں سے آنکھ میں یہ بےشمار دُھند
کیسے نہ اس کا سارا سفر رائیگاں رہے
جس کاروانِ شوق کی ہے راہگزار دُھند
ہے یہ جو ماہ و سال کا میلہ لگا ہوا
کرتی ہے اس میں چھپ کر مرا انتظار دُھند
آنکھیں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ
دل وہ چمن کہ جس کا ہے رنگِ...
اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے بیتاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں، خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھے
تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا، تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں، ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے
جو...
قاصد جو تھا بہار کا نا معتبر ہُوا
گلشن میں بندوبست برنگِ شِگر ہُوا
خواہش جو شاخِ حرف پہ چٹکی، بِکھر گئی
آنسو جو دِل میں بند رہا، وہ گُہر ہُوا
اِک منحرف گواہ کی صُورت، چراغِ شام
اُس کی گلی میں رات مراہم سفر ہوا
آواز کیا کہ شکل بھی پہچانتا نہیں
غافل ہمارے حال سے وہ اِس قدر ہوا...
یوں تو کیا چیز زندگی میں نہیں
جیسے سوچی تھی اپنے جی میں ‘ نہیں
دِل ہمارا ہے چاند کا وہ رُخ
جو ترے رُخ کی روشنی میں ، نہیں
سب زمانوں کا حال ہے اِس میں
اِک وہی شام ، جنتری میں نہیں !
ہیں خلاؤں میں کِتنی دُنیا ئیں
جو کِسی حدِّ آگہی میں نہیں !
ہو کیسا، حَرم کہ بُت خانہ
فرق ان...
ہم لوگ
دائروں میں چلتے ہیں۔
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے۔
آزوئیں چلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں۔
منزلیں تمنا کی
ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
گرد اڑتی رہتی ہے
درد بڑھتا رہتا ہے
راستے نہیں گھٹتے۔
صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آًمد کا پیش باب کہتے ہیں۔...