غزل
(احمد مشتاق)
اب وہ گلیاں وہ مکاں یاد نہیں
کون رہتا تھا کہاں یاد نہیں
جلوہء حسن ازل تھے وہ دیار
جن کے اب نام و نشاں یاد نہیں
کوئی اجلا سا بھلا سے گھر تھا
کس کو دیکھا تھا وہاں یاد نہیں
یاد ہے زینہء پیچاں اس کا
در و دیوار مکاں یاد نہیں
یاد ہے زمزمہء ساز بہار
شور آواز خزاں یاد نہیں
غزل
(بسمل سعیدی - 1901-1977 دہلی ہندوستان)
اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے
طوفان کے بعد کا سکوں ہے
احساس کو ضد ہے دردِ دل سے
کم ہو تو یہ جانیے فزوں ہے
راس آئی ہے عشق کو زبونی
جس حال میں دیکھیے زبوں ہے
باقی نہ جگر رہا نہ اب دل
اشکوں میں ہنوز رنگِ خوں ہے
اظہار ہے دردِ دل کا بسمل
الہام نہ شاعری فسوں ہے
پہلے شرما کے مار ڈالا
پھر سامنے آ کے مار ڈالا
ساقی نہ پلائی تو نےآخر
ترسا ترسا کے مار ڈالا
عیسیٰ تھے تو مرنے ہی نہ دیتے
تم نے تو جِلا کے مار ڈالا
بیمارِ الم کو تو نے ناصح
سمجھا سمجھا کے مار ڈالا
خنجر کیسا؟ فقط ادا سے
تڑپا تڑپا کے مار ڈالا
یادِ گیسو نے ہجر کی شب
الجھا الجھا کے مار ڈالا
فرقت...
وصل کی فکر اب کون کرے؟ دعوائے محبت کس کو ہے؟
ناصح جان کے لاگو ہو تو عشق کی فرصت کس کو ہے؟
پاس رکھو یا آگ لگا دو، میری بلا سے لے جاؤ
جو کم بخت کے تیور ہیں اس دل کی ضرورت کس کو ہے؟
قبلہ و کعبہ، واعظِ دوراں، حسنِ بیاں کی ہو گئی حد
حوروں کے تو قصے پڑھے ہیں، دیکھا حضرت! کس کو ہے؟
میری حالت غور سے...
مجھی سے کرتا نہ تھا کوئی مشورہ مرا دل
سراب و خواب کے صحرا میں جل بجھا مرا دل
نہ دیکھے طور طریقے، نہ عادتیں دیکھیں
کسی کی شکل پہ اک روز مر مٹا مرا دل
وفا تو خیر ہوئی اس جہان میں عنقا
جو وہ ملے تو یہ پوچھوں کہ کیا ہوا مرا دل؟
مآلِ دیدہ وری پوچھتے ہو، دیکھ لو خود
بجھی ہوئی مری آنکھیں، بجھا ہوا...
اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں تنقید اور اصلاح کی گزارش کے ساتھ پیشِ نظر ہے.
مجھ کو لوٹا دو وہی دور پرانے والے
کچی مٹی کے محلات بنانے والے
میرا پتوں پہ خزاں کی وہ مثالیں دینا
وہ تِرے وعدے کبھی دور نہ جانے والے
روک رکھے ہیں کئی شعر اسی الجھن میں
جان جائیں نہ تِرا نام زمانے والے
مدتوں بعد...
کون صیاد اِدھر بہرِ شکار آتا ہے
طائرِ دل قفسِ تن میں جو گھبراتا ہے
زلفِ مشکیں کا جو اس شوخ کے دھیان آتا ہے
زخم سے سینۂ مجروح کا چر جاتا ہے
ہجر میں موت بھی آئی نہ مجھے سچ ہے مثل
وقت پر کون کسی کے کوئی کام آتا ہے
اب تو اللہ ہے یارانِ وطن کا حافظ
دشت میں جوشِ جنوں ہم کو لیے جاتا ہے
ڈوب کر چاہِ...
پیری میں شوق حوصلہ فرسا نہیں رہا
وہ دل نہیں رہا وہ زمانہ نہیں رہا
کیا ذکرِ مہر اس کی نظر میں ہے دل وہ خوار
شایانِ جور و ظلم دل آرا نہیں رہا
جھگڑا مٹا دیا بُتِ کافر نے دین کا
اب کچھ خلافِ مومن و ترسا نہیں رہا
عشاق و بوالہوس میں نہیں کرتے وہ تمیز
واں امتیازِ نیک و بد اصلا نہیں رہا
کیوں بہرِ...
محفل سے اٹھانے کے سزاوار ہمیں تھے
سب پھول ترے باغ تھے اک خار ہمیں تھے
ہم کس کو دکھاتے شبِ فرقت کی اداسی
سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے
سودا تری زلفوں کا گیا ساتھ ہمارے
مر کر بھی نہ چُھوٹے وہ گرفتار ہمیں تھے
کل رات کو دیکھا تھا جسے خواب میں تم نے
رخسار پہ رکھے ہوئے رخسار، ہمیں تھے
دل...
اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے
شرابی جمع ہیں مے خانہ میں ٹوپی اچھلتی ہے
بہارِ مے کشی آئی چمن کی رت بدلتی ہے
گھٹا مستانہ اٹھتی ہے ہوا مستانہ چلتی ہے
زخود رفتہ طبیعت کب سنبھالے سے سنبھلتی ہے
نہ بن آتی ہے ناصح سے نہ کچھ واعظ کی چلتی ہے
یہ کس کی ہے تمنا، چٹکیاں لیتی ہے جو دل میں
یہ کس کی...
تجھے دیکھا، غزل نئی لکھی
ایک پڑھ لی تو دوسری لکھی
حسن کو جانتا بھی تھا، جس نے
میری قسمت میں عاشقی لکھی؟
دل پہ تھا قرض تیرے ہونٹوں کا
ہم نے جو بات بھی سنی، لکھی
تو نے پھر سے بدل دیے کردار؟
یا کہانی ہی دوسری لکھی؟
نقشِ عالم برا بھلا کھینچا
لوحِ محفوظ پائے کی لکھی
دلِ ناداں کو باندھ رکھ راحیلؔ...
ان دنوں کچھ تعلیمی مصروفیات کے باعث کلاسیک کی گرد جھاڑنے کا اتفاق ہوا ہے۔ مصحفیؔ کی ایک شہرۂِ آفاق غزل نظر سے گزری تو ذہن سے چپک کر ہی رہ گئی۔ اسے اتارنے کے لیے ہم نے بھی اس زمین میں کچھ لوٹنیاں کھانی مناسب سمجھیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
حسن تھا یا کمال تھا، کیا تھا؟
عشق تھا یا زوال تھا، کیا تھا؟
کیا...
غزل
مُحسنؔ نقوی
شاخ ِ مِژگانِ محبّت پہ سجا لے مجھ کو
برگِ آوارہ ہُوں، صرصر سے بچا لے مجھ کو
رات بھر چاند کی ٹھنڈک میں سُلگتا ہے بدن
کوئی تنہائی کے دوزخ سے نکِالے مجھ کو
مَیں تِری آنکھ سے ڈھلکا ہُوا اِک آنسو ہُوں
تو اگر چاہے، بِکھرنے سے بچا لے مجھ کو
شب غنیمت تھی ، کہ یہ زخم نظارہ تو نہ...
توڑ ڈالیں قلم تو بہتر ہے
نہ لکھیں رازِ غم تو بہتر ہے
یوں بھی ہم کو نہ چھوڑے گی دنیا
آپ کر لیں ستم تو بہتر ہے
کفر ہے ہم اگر تمھیں چاہیں
لوگ پوجیں صنم تو بہتر ہے
عشق مرتا تو کم ہی ہے لیکن
عشق مارے بھی کم تو بہتر ہے
داد ملتی ہے وہ سنیں نہ سنیں
آہ کا زیر و بم تو بہتر ہے
نہ کرو توبہ دل دکھانے سے...
ستم روز روز اے ستم گر نہ ڈھا
کسی روز محشر بپا کر دکھا
جفا دے رہی ہے سبق ضبط کا
ادھر ابتدا اور ادھر انتہا
مبارک ہو سرکار میں مر چلا
مبارک ہو دل آپ کا ہو گیا
تری شکل وحشی نے کیوں دیکھ لی
دل اب مجھ کو صحرا میں لے جائے گا
بھلا ہو ترے مخبروں کا مگر
مرا حال خود بھی کبھی دیکھ جا
اسے دیکھ کر بات...
تنگ ندی کے تڑپتے ہوئے پانی کی طرح
ہم نے ڈالی ہے نئی ایک روانی کی طرح
ڈھلتے ڈھلتے بھی غضب ڈھائے گیا ہجر کا دن
کسی کافر کی جنوں خیز جوانی کی طرح
ایسی وحشت کا برا ہو کہ ہم اپنے گھر سے
گم ہوئے خود بھی محبت کی نشانی کی طرح
ننگے سچ قابلِ برداشت کہاں ہوتے ہیں؟
واقعہ کہیے تو کہیے گا کہانی کی طرح
پاس...
کبھی ان کہی بھی کہا کیجیے
کبھی ان سنی بھی سنا کیجیے
دعائیں بھی لے لوں گا گر جی گیا
مرا جا رہا ہوں، دوا کیجیے
نئے وعدے کا شکریہ، مہرباں
پرانا بھی کوئی وفا کیجیے
محبت وراثت نہ تھی آپ کی
یہ قرض آپ پر ہے، ادا کیجیے
غزل جانتا ہے زمانہ اسے
تڑپ جائیے تو صدا کیجیے
نگہ ہے کہ فتنہ؟ ادا ہے کہ حشر؟
کرم...
غزل
بے غرض کرتے رہو کام محبت والے
خود محبت کا ہیں انعام محبت والے
لفظ پھولوں کی طرح چن کر اُسے دان کرو
اُس پہ جچتے ہیں سبھی نام محبت والے
خود کو بیچا تو نہیں میں نے مگر سوچوں گا
وہ لگائےتو سہی دام محبت والے
۔
دل کی اوطاق میں چوپال جمی رہتی ہے
ملنے آتے ہیں سر ِ شام محبت والے
غم کسی...
غزل
بازی انا کی ، بھوک سے کیسی بری لگی
بھوکا بُرا لگا ، کبھی روٹی بری لگی
خانہ بدوشیوں کے یہ دکھ بھی عجیب ہیں
چوکھٹ پر اپنے نام کی تختی بری لگی
روشن دریچے کر گئے کچھ اور بھی اداس
صحرا مزاج آ نکھ کو بستی بری لگی
دشمن کی ناخدائی گوارا نہ تھی ہمیں
غرقاب ہوتے ہوتے بھی...