اردو شاعری

  1. کاشفی

    مرقّع ء رنج و الم زندگی ہے - فرزانہ اعجاز

    غزل (فرزانہ اعجاز) مرقّع ء رنج و الم زندگی ہے مری زندگی ، اب یہی زندگی ہے خوشی میں بھی دل ساتھ دیتا نہیں اب ہنسی میں ملی آنسو وءں کی نمی ہے نہ پوچھا کبھی تم نے احوال میرا مجھے زعم تھا کہ بڑی دوستی ہے گئ رات جیسے اندھیری گلی تھی سویرے کا مطلب نئ روشنی ہے ثبوت وفا مانگتے ہیں ہم ہی سے...
  2. رشید حسرت

    تشہیر کرنا۔

    تشہِیر کرنا۔ لِکھا میں نے تُمہیں اب تُم مُجھے تحرِیر کرنا گواہی دے تِرا دِل جو وُہی تعبِیر کرنا تُمہیں جب بھی لگے میں تُم سے باہر جا رہا ہوں بس اپنی زُلف میرے پاؤں کی زنجِیر کرنا مُجھے تُم ایک تھیلا دے کے آٹا سوچتے ہو تُمہارا حق ہے میری ہر طرح تشہِیر کرنا بُڑھاپے کی مِرے تُم لِکھ رہے ہو...
  3. محمداحمد

    غزل : یوں نہ دل کو جلائیے صاحب

    غزل یوں نہ دل کو جلائیے صاحب چھوڑیئے بحث، جائیے صاحب اب دلیلوں کی جا ہے دل میرا اب پرخچے اُڑائیے صاحب مصرع زیست میں ہےگر سکتہ کچھ ترنم سے گائیے صاحب تہمتِ عشق در بہ در کیوں ہو ہم اُٹھاتے ہیں، لائیے صاحب سانس اٹکی ہوئی ہے سینے میں اُن کو جا کر بتائیے صاحب دید، الفت، وصال، ہجر، ملال جو کیا...
  4. ا

    کلام عامر

    جانے کس بات پہ وہ بچھڑا رہا یاد نہیں کیوں ہوا مجھ سے خفا یار مرا یاد نہیں جو کیا "عہد الست" وہ بھی رہا یاد نہیں کس لئے بھیجا یہاں رب نے ذرا یاد نہیں شب سسکتے ہوئے ہر روز گزر جاتی ہے جانے کس بات کی پائی ہے سزا یاد نہیں اتنے مصروف ہوئے اپنے مشاغل میں سبھی ان کو فرمانِ نبی، حکمِ خدا یاد...
  5. عاطف ملک

    تمام دہر ہی جیسے کسی خمار میں ہے

    تمام دہر ہی جیسے کسی خمار میں ہے ہمارا دل جو تری یاد کے حصار میں ہے لرز اٹھا ہے فلک، تھرتھرا رہی ہے زمیں وہ سوز و درد بھرا آہِ دل فگار میں ہے جو ہم سے کی بھی تو ظالم نے بات ایسی کی کہ سن کے دل کو سکوں ہے نہ جاں قرار میں ہے میں چاہتا ہوں کہ سب ہار کر تجھے جیتوں تو سوچتا ہے تری جیت میری ہار میں...
  6. عاطف ملک

    غزل: دل لگانے کی کیا ضرورت ہے

    دل لگانے کی کیا ضرورت ہے چوٹ کھانے کی کیا ضرورت ہے آزمانے کی کیا ضرورت ہے یوں ستانے کی کیا ضرورت ہے دل میں رہیے نگاہ میں بسیے دور جانے کی کیا ضرورت ہے آپ تھے ٹھیک اور ہم تھے غلط منہ بنانے کی کیا ضرورت ہے کہہ دیا جب کہ آپ ہی کا ہوں پھر جتانے کی کیا ضرورت ہے ایسی قاتل نگاہ ہوتے ہوئے "مسکرانے...
  7. عاطف ملک

    عشق جس دن سے بے اصول ہوا

    عشق جس دن سے بے اصول ہوا جور و عصیاں بنا، فضول ہوا چھا گئی دل پہ ایسی بوالہوسی پھول ہوتا تھا جو، ببول ہوا وہ کہ ٹھہرے متاعِ جاں میری میں کہ ان کی ذرا سی بھول ہوا خار کیا شے ہے، سنگ ہے کیا چیز ان کے در کا ہوا تو پھول ہوا تہمتیں، طنز و طعنہ، رسوائی بسر و چشم سب قبول ہوا دکھ نہیں تیری بے رخی...
  8. محمداحمد

    نظم ۔۔۔آنگن۔۔۔از محمد احمدؔ

    آنگن یہ میرا گھر ہے یہ میرا کمرہ کہ جس میں بیٹھا میں اپنے آنگن کو دیکھتا ہوں کشادہ آنگن کہ جس میں مٹی کی سُرخ اینٹیں بچھی ہوئی ہیں کیاریوں میں سجیلے گُل ہیں حسین بیلیں قطار اندر قطار دیوار پر چڑھی ہیں بسیط آنگن کے ایک کونے میں اک شجر ہے شجر کے پتے ہوا کے ہمراہ جھومتے ہیں میں اپنے کمرے سے دیکھتا...
  9. محمد خلیل الرحمٰن

    شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ- 2

    شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ -2 محمد خلیل الرحمٰن قاعدہ کا پہلا حصہ( شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ | اردو محفل فورم (urduweb.org)) لکھے کچھ عرصہ ہوا۔ مڑ کر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لطیف پیرائے میں لکھی تحریر اردو محفل پر خاصی مقبول ہوئی۔ پہلے حصے میں مطمحِ نظر یہ تھا کہ شاعری سے نابلد...
  10. عاطف ملک

    اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا

    اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا لبوں پہ صرف تری آرزو ہی لاؤں گا خدا کی وسعتِ رحمت سے لو لگاؤں گا میں پھر سے بابِ اجابت کو کھٹکھٹاؤں گا ہو جس میں میرے مقابل وہ دشمنِ ایماں میں جان بوجھ کے وہ جنگ ہار جاؤں گا بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا اسی کے نام سے...
  11. عاطف ملک

    جس پل سے ترا عشق ہمیں دان ہوا ہے

    چند تک بندیاں: جس پل سے ترا عشق ہمیں دان ہوا ہے پہلے جو کٹھن تھا وہی آسان ہوا ہے الفت کا بھی کیا خوب ہی احسان ہوا ہے اب نام تمہارا مری پہچان ہوا ہے یہ بھول گیا فرطِ مسرت میں دھڑکنا اس دل میں ترا درد جو مہمان ہوا ہے جاتی ہے تو جاں جائے، نہ جائے گا یہ دل سے یہ عشق ہمیں صورتِ ایمان ہوا ہے...
  12. عاطف سعد

    ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

  13. عاطف ملک

    ایک کاوش: شیون و فغاں لکھا اہلیت کے خانے میں

    محترم عامر امیر کی مشہور زمین میں ایک کوشش قابلِ قدر اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔شاید کوئی شعر آپ کو پسند آ جائے۔رائے ضرور دیجیے گا۔ شیون و فغاں لکھا اہلیت کے خانے میں اور داد خواہی کا شوق، لَت کے خانے میں دل کا گوشوارہ جب ہم نے کھول کر دیکھا تیرا غم لکھا پایا منفعت کے خانے میں...
  14. عاطف سعد

    اطہر تم نے عشق کیا

  15. عاطف ملک

    غزل: خوب سمجھا ہوں میں دنیا کی حقیقت لوگو

    ایک پرانی غزل محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔ خوب سمجھا ہوں میں دنیا کی حقیقت لوگو! تب تلک چاہ ہے، جب تک ہے ضرورت، لوگو! خود پرستی کے فسوں ساز سمندر میں کہیں مر گیا ڈوب کے احساسِ مروت لوگو! نہ رہا دور کہ انمول تھے اخلاص و وفا اب تو لگتی ہے ہر اک چیز کی قیمت، لوگو! "جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے...
  16. Qamar Shahzad

    غزل:قریہ ءِ جاں پہ کیوں لشکرِ ہجر کا خوف

    قریہ ءِ جاں پہ کیوں لشکرِ ہجر کا خوف طاری کروں وقفِ تعبیرِ خوابِ وصالِ صنم زیست ساری کروں کوئی دعویٰ نہیں اس ہنر میں مجھے، ہاں اگر تُو ملے دستِ لب سے ترے جسم کی لوح پر دستکاری کروں دیکھنا عکسِ جاناں زِ چشمِ تخیل برائے حیات نعمتِ خاص ہے، آبشارِ تشکر کو جاری کروں رشکِ مہتاب اپنی جبینِ...
  17. عاطف ملک

    مضطر و بے کس و لاچار رہا کرتے ہیں

    ایک اور کاوش محترم اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔ مضطر و بے کس و لاچار رہا کرتے ہیں تیری چوکھٹ سے جو بے زار رہا کرتے ہیں اک نظر لطف کی، اے میرے مسیحا اس سمت اس طرف آپ کے بیمار رہا کرتے ہیں وہ تو معصوم ہی رہتے ہیں ستم کر کے بھی ہم گلہ کر کے گنہ گار...
  18. Qamar Shahzad

    اک عکسِ لاوجود سے لپٹا ہوا ہوں میں

    اک عکسِ لا وجود سے لپٹا ہوا ہوں میں جیسا مجھے نہ ہونا تھا ویسا ہوا ہوں میں میرے درختِ جسم کو خوفِ خزاں نہیں اُس معجزاتی ہونٹ کا چوما ہوا ہوں میں پورے کیے ہیں پیار کے سارے لوازمات اب کُن کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں میں خود کو تمہارے بعد سمیٹا کچھ اس طرح لگتا نہیں کہیں سے بھی ٹوٹا ہوا ہوں...
  19. Qamar Shahzad

    وہ اتنا حسیں،اتنا حسیں، اتنا حسیں ہے

    اس جیسا زمانے میں کوئی اور نہیں ہے وہ اتنا حسیں، اتنا حسیں، اتنا حسیں ہے اس چاند سے آنکھیں نہ مری ہونگی منور درکار انہیں یار فقط تیری جبیں ہے چھایا ہے تخیل پہ مرے تیرا سراپا محسوس یہ ہوتا ہے کوئی پھول قریں ہے وہ حدِ تناظر سے بہت دور ہے، مانو بینائی کہیں اور مری آنکھ کہیں ہے رستوں نے...
  20. عاطف ملک

    غزل: پلٹ کر کی خبر گیری، نہ رکھا رابطہ کوئی

    ایک اور کاوش محترم اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔ پلٹ کر کی خبر گیری، نہ رکھا رابطہ کوئی کبھی اپنوں کو بھی یوں چھوڑ کر جاتا ہے کیا کوئی خدا شاہد ہے، تھا، ہے، اور نہ ہو گا دوسرا کوئی مرے دل میں سمائے بھی تو کیوں تیرے سوا کوئی ہمارے واسطے تو بس وہی اک رہنما ٹھہرا دکھائے تجھ کو پانے...
Top