اشک گردوں سے روانی سیکھیں.
غم کی روداد سنانی سیکھیں.
درد پرکیف رہے سوزاں بھی.
رونی صورت جو بنانی سیکھیں.
باد نو خیز چلے غنچے کھلیں.
آنکھ گلچیں جو بچھانی سیکھیں.
اک تغیر ہے بپا عالم میں.
اب روش کہنہ بھلانی سیکھیں.
ہم کہ مجبور سے انساں ٹھہرے.
کس طرح برق فشانی سیکھیں.
اک حقیقت یا فسانہ زندگی.
راز ہستی کا بہانہ زندگی.
ارتباط آب و گل اور رنگ و بو.
حسن فطرت کا نشانہ زندگی.
آشیاں سے اس پرے منظر کئی.
اک تلاش آب و دانہ زندگی.
اس کی وسعت میں نہاں ارض و سما.
ایک رمز صوفیانہ زندگی.
اتفاقی ہے تجرد ذات کا.
مجھ میں پنہاں صد زمانہ زندگی.
عشق مجنوں بنائے دیتا ہے.
بات یونہی بڑھائے دیتا ہے.
دھار لیتا ہے چاند روپ ان سا.
آہ کیا ظلم ڈھائے دیتا ہے.
پھرتا رہتا ہے ان کی گلیوں میں.
سارے جھگڑے بھلائے دیتا ہے.
روئے دیرینہ، کارگاہ سحر.
عزم نو کو دکھائے دیتا ہے.
لاد لیتے ہیں عجز کاندھے پر.
ان کے در پر جھکائے دیتا ہے.
پھول مانگے تو مقدر نے دلائے پتھر
یار میرے ہی مرے واسطے لائے پتھر
لوگ پھولوں کو مسل دیتے ہیں بے دردی سے
ہم نے ہیں گود میں شفقت سے اٹھائے پتھر
تیری بستی کو نہ جانیں تو کسے ہم جانیں
ہم پہ سو بار ترے کوچے سے آئے پتھر
جانے کس کھوہ میں ہیں آج مسلمان چھپے
پھر سے اسلام پہ بوجہل کے آئے پتھر
ہم نے عجز و انکساری چھوڑ دی۔
خواہشوں کی پیروکاری چھوڑ دی۔
اوڑھ کر تن پر لبادہ ذات کا۔
بے خودی، بے اختیاری چھوڑ دی۔
گر تڑپنا ہی مقدر ہے تو پھر۔
کوئے زنداں آہ و زاری چھوڑ دی۔
دل ہوا جب خوگرِ رنج و الم۔
سو وہ رسمِ غمگساری چھوڑ دی۔
ظلمتِ شب کا مداوا کس طرح۔
روشنی نے لالہ کاری چھوڑ دی۔
ان کے جیسا کوئی دو جہاں میں نہیں۔
جانِ عالم ہیں وہ اور سب سے حسیں۔
چھو کے دامانِ رحمت چلی جب ہوا۔
فصلِ گل چھا گئی غنچئہِ گل کھلا۔
پھر خزاں ہو گئی جا کے خلوت گزیں۔
حسنِ انوار سے پھر منور ہوا۔
خلد سے برتری کا تصور ہوا۔
دشت تھا تیرگی کے جو پہنچا قریں۔
ذات اقدس نے بخشا ہے پائے شرف۔
معجزے رونما ان...
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فِعْلن
آؤ دل میں اُنہیں بساتے ہیں.
بات کچھ تو چلو بڑھاتے ہیں.
ہوتے ہیں تاجور مقدر کے.
در پہ آقا جنہیں بلاتے ہیں.
منزلِ عشق ہے مدینے میں.
چل اسی سمت چلتے جاتے ہیں.
اپنے غم کی بچشم نم آؤ.
ان کو جا داستاں سناتے ہیں.
روز محشر کوئی کہے کہ چلو.
جام ہاتھوں...
متدارک مثمن سالم
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
وسعتیں جا ملیں حد سے ادراک کی.
رفعتیں بڑھ گئیں عرش سے خاک کی.
دورِ ظلمت چھٹا روشنی ہو گئی.
جب کہ آمد ہوئی شاہِ لولاک کی.
مقصدِ جاں رہا انس و جاں کی فلاح.
مال و دولت نہ ہی فکر پوشاک کی.
کوئی صادق کہے اور کوئی امیں.
دھوم ہر جا مچی رحمتِ پاک کی.
لاج رکھ...
اِصلاح کی درخواست ہے۔
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
سربَسر آہُ فُغاں گِریہ و نالہ دِل کا
اب کہ جاتا ہی نہیں درد یہ پا لا دل کا
آرزو ہائے صنم شِکوہِ از رنج و الم
دیکھ حیرا ن ہوں یہ طور نِرالا دِل کا
صفائے شیشۂ من، لا الہ' الا ھو
لگی ہے دل کی لگن، لا الہ' الا ھو
کھلے یہ آنکھ تو کھلتے ہی ایک نور سحر
یہ نور کی ہے اٹھن، لا الہ' الا ھو
نگاہ شیخ نگاہوں میں ہاتھ ہاتھوں میں
کھلی زباں تو سخن، لا الہ' الا ھو
چڑھا ہے "احسن تقویم" کا یہ پہناوا
ڈلا ہے اس میں بدن، لا الہ' الا ھو
کثیف روح و بدن...
ایک محفل میں ابراہیم ذوق صاحب کا یہ مصرع غزل کے لیے پیش کیا گیا تھا- ایک ناقص سی کاوش پر احباب کی نظر شفقت درکار ہے۔
"جس جگہ پر جا لگی وہ ہی کنارہ ہو گيا"
بعد الفت ہم پہ بھی یہ آشکارہ ہوگیا
درد ہجراں سے تعلق اب ہمارا ہوگیا
آنکھ اٹھتے ہی قیامت خیزیاں برپا ہوئیں
زلف ہٹتے ہی قیامت کا نظارہ ہو...
ایک محفل میں ابراہیم ذوق صاحب کا یہ مصرع غزل کے لیے پیش کیا گیا تھا- ایک ناقص سی کاوش پر احباب کی نظر شفقت درکار ہے۔
"جس جگہ پر جا لگی وہ ہی کنارہ ہو گيا"
بعد الفت ہم پہ بھی یہ آشکارہ ہوگیا
درد ہجراں سے تعلق اب ہمارا ہوگیا
آنکھ اٹھتے ہی قیامت خیزیاں برپا ہوئیں
زلف ہٹتے ہی قیامت کا نظارہ ہو...
ایک محفل میں ابراہیم ذوق صاحب کا یہ مصرع غزل کے لیے پیش کیا گیا تھا- ایک ناقص سی کاوش پر احباب کی نظر شفقت درکار ہے۔
"جس جگہ پر جا لگی وہ ہی کنارہ ہو گيا"
بعد الفت ہم پہ بھی یہ آشکارہ ہوگیا
درد ہجراں سے تعلق اب ہمارا ہوگیا
آنکھ اٹھتے ہی قیامت خیزیاں برپا ہوئیں
زلف ہٹتے ہی قیامت کا نظارہ ہو...
یہ واحد شعر کبھی غزل کی صورت نہ اختیار کر سکا۔ آپ سب اگر چاہیں تو ایک ایک شعر لگا سکتے ہیں
نہیں کچھ کم تیری الجھی ہوئ لٹ کی اسیری بھی
رہائی اور بھی مشکل ہے جب کھل کے بکھرتی ہے
پچھلے دنوں جناب محمد یعقوب آسی صاحب نے ایک غزل پر اصلاح کے دوران چند مراسلوں میں شاعر کے نام کچھ نوٹ لکھے جو دراصل ایک مستقل مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس مضمون کی ہمہ گیریت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم سب اصلاحِ سخن چاہنے والے شعراء اسے ضرور پڑھ لیں اور اس سے اکتسابِ علم و فن کی سعادت حاصل...
بندہ نظم کے میدان میں بالکل نیا ہے، سچ تو یہ ہے کہ شاید یہ میرے بس کا کام ہی نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نےنعت کا ایک شعر ذہن میں ڈالا تو رہا نہیں گیا، از راہِ کرم اس عظیم عبادت میں میری رہنمائی فرمائیے:
تقدیس تیری ذات کی گر جان جاؤں میں
سب چھوڑ تیرے نام پر قربان جاؤں میں
وہ نور ہو آنکھوں کی پتلیوں...
ستم گر ستم سے کنارہ کرو اب
محبت سے دن تم گزارہ کرو اب
جفاؤں کو چھوڑو،وفاؤں پہ آؤ
نئی زند گی کا نظا رہ کر و ا ب
سنا ہے،کہ تم نےاٹھائی تھی چلمن
نہیں ہم نے دیکھا ،دوبارہ کرو اب
جوباتیں ہیں بیتی ،نہ چھیڑو دوبارہ
اگر جان چاہو، اشارہ کرو اب
عداوت نے تم کو ہے پتھربنایا
محبت سے دل کو شرارہ کرو اب